رسائی کے لنکس

'پاکستان و بھارت ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر تحمل کا مظاہرہ کریں'


اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر تحمل کا مظاہرہ کریں۔

اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ سفارت کاری اور مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔

کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسائل مذاکرات سے حل ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی اور انسانی حقوق کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کھلنے والی کرتار پور راہداری کا ذکر کیا کہ یہ اقدام پاکستان کی بین المذاہب ہم آہنگی کی کوششوں کو ظاہر کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کردار ادا کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام کے 40 سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے تعاون سے اسلام آباد میں پیر سے دو روز کانفرنس ہو رہی ہے۔ جس میں شرکت کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پاکستان آئے ہیں۔

افغان مہاجرین کے حوالے سے انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ پاکستانی افغان مہاجرین کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان مہاجرین کو بسانے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان سالوں تک مہاجرین کو بسانے والا بڑا ملک رہا ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے مشنز میں کردار ادا کرنے پر بھی پاکستان کی تعریف کی۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے طور پر یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ پاکستان کے دورے کی دعوت دینے پر عمران خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی بھی تعریف کی۔

اسلاموفوبیا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا عدم برداشت کی ایک قسم ہے۔ ہمیں اسلاموفوبیا کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح نفرت انگیزی کے تدارک کی ضرورت ہے۔ ہمیں لوگوں کو تقسیم کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس چار روزہ دورے پر اتوار کو پاکستان پہنچے ہیں۔ راولپنڈی کے نور خان ایئر بیس پر اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرام سمیت دیگر عہدیداروں نے ان کا استقبال کیا۔

پاکستان میں قیام دوران انتونیو گوتریس افغان مہاجرین سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کے علاوہ صدر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام کے 40 سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے تعاون سے اسلام آباد میں پیر سے دو روز کانفرنس ہو رہی ہے۔

کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، وزیر اعظم عمران خان، امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کے ساتھ ساتھ 20 ممالک اور نجی اداروں کے نمائندے شرکت کریں گے۔ اس کانفرنس کا موضوع 'یکجہتی کے نئی شراکت داری' ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فارقی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی اس موقع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت، پاکستان کی گزشتہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کی کھلے دل سے میزبانی کے عزم اور افغانستان میں امن و استحکام کی کوششو ں کا اعتراف ہے۔

پاکستان آمد سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا تھا کہ پاکستان اقوم متحدہ کے عالمی امن مشن کے لیے مستقل طور پر قابل اعتماد تعاون فراہم کرنے والا ملک ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں خدمات سر انجام دینے پر عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پاکستان جا رہا ہوں۔

اسلام آباد میں آئندہ ہفتے ہونے والی افغان مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس ایک ایسے وقت ہورہی ہے جب افغانستان میں قیام امن کی کوششیں مثبت سمت کی طرف گامزن بتائی جا رہی ہیں۔

پاکستان پہنچنے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے افغان مہاجرین کے ایک گروپ سے ملاقات کی۔

انتونیو گوتریس نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغان مہاجرین کے نمائندوں نے انہیں اپنی کہانیوں، امیدوں اور خوابوں سے آگاہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 40 سال سے افغان مہاجرین کو پناہ دی ہوئی ہے۔

ان کے بقول دنیا کو مہاجرین کے ساتھ کھڑے ہونے والی اسی طرح کی قیادت کا مظاہرہ اور میزبان ممالک کی حمایت کرنی چاہیے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس ایک اہم موقع پر ہو رہی ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے طے پانے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔

ان کے بقول یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے نہ صرف اس خطے کے لیے بلکہ یہ افغانستان کے لیے بھی اہم ہے۔

نجم رفیق کے بقول پاکستان ایک عرصے سے یہ بات کرتا رہا ہے کہ افغانستان میں جب بھی حالات بہتر ہوں پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو اپنے ملک واپس چلے جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہو گا تو افغان مہاجرین کی واپسی کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان گزشتہ 40 سال سے افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا آ رہا ہے اور اس وقت بھی ایک انداز کے مطابق رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ 25 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں۔

تجزیہ کار نجم رفیق کے بقول اسلام آباد ہمیشہ سے کابل کے ساتھ یہ معاملہ اٹھاتا رہا ہے کہ افغانستان اپنے شہریوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کرے۔

نجم رفیق نے مزید کہا کہ اسلام آباد آئندہ ہفتے افغان مہاجرین سے متعلق ہونے والی کانفرنس بھی اسی معاملے سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہو بھی جاتا ہے تو افغان مہاجرین کی واپسی اتنی آسان نہیں ہو گی۔ ایک تو اس کے لیے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کا کردار اہم ہے تاہم اقوام متحدہ کے اپنے فنڈز کم ہوتے جا رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کے لیے درکار فنڈز حاصل کرنے کی راہ میں مسائل رہیں گے۔ ان مہاجرین کی واپسی کے لیے فنٖڈز کی ضرورت ہو گی اس لیے بین الاقوامی بداری کو اس پر غور کی ضرورت ہے کیوں کہ اس وقت دنیا کی معاشی صورت حال بہتر نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک طویل عمل ہوگا کہ افغان مہاجرین کب اور کیسے اپنے وطن واپس لوٹ سکیں گے۔

تجزیہ کار نجم رفیق کے بقول افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے کیوں کہ امن کے بغیر اٖٖٖفغان مہاجرین واپسی پر تیار نہیں ہوں گے۔

مبصرین کے مطابق دنیا میں کئی دیگر بحرانوں کی وجہ سے عالمی برداری کی توجہ افغان مہاجرین کے معاملے میں کم ہوئی ہے۔ پاکستان کے مطابق وہ مشکل معاشی صورت حال کے باوجود لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا آ رہا ہے۔ اب اسلام آباد بین الااقوامی برادری کے تعاون سے ان مہاجرین کی با وقار واپسی کا خواہاں ہے۔

XS
SM
MD
LG