پاکستان میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پوری کرنے کے لیے قانون سازی کا عمل جاری ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کی مدد سے باہمی تعاون کا ترمیمی بل پارلیمان سے منظور کرا لیا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جمعرات کو 'میوچوئل لیگل اسسٹنس' ترمیمی بل 2020 کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ منی لانڈرنگ اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کی حوالگی اور ان کے جرائم سے متعلق معلومات کا باہمی تبادلہ کیا جا سکے گا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے 'لمیٹڈ لائیبلٹی پارٹنر شپ بل' منظور کر لیا ہے جس کے تحت بینکنگ ٹرانزیکشن کے 'بینی فیشل اونر' کا نام اور ملکیت ظاہر کرنا لازمی ہو گا۔
'میوچوئل لیگل اسسٹنس کریمنل میٹرز' (ایم ایل اے) ترمیمی بل 2020 ہے کیا؟
یہ بل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کو دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے ضروری تھا۔ اس قانون سازی کے بعد پاکستان منی لانڈرنگ سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان سے متعلق معلومات کا تبادلہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کی بنا پر کر سکے گا۔
اس بل کے تحت کسی شخص کی حوالگی پاکستانی اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں شمار ہو گی تو اسے کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکے گا۔
ایم ایل اے ترمیمی بل کے تحت ایک اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جس کی سربراہی سیکریٹری داخلہ یا ان کے برابر کا کوئی افسر کرے گا۔ اس اتھارٹی میں سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری قانون اور چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز بھی شامل ہوں گے۔
یہ اتھارٹی ہر چھ ماہ بعد اپنی کارکردگی کی رپورٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرے گی۔
باہمی قانونی معاونت کا بل سیاسی نوعیت کے معاملات پر لاگو نہیں ہو گا۔
اس قانون کے تحت پاکستان کسی دوسرے ملک یا کوئی دوسرا ملک پاکستان سے قانونی معاونت حاصل کر سکے گا جن میں گواہوں، مشکوک افراد، قصور وار یا مجرموں کی جگہ یا ان کی شناخت کے بارے میں پوچھا جا سکے گا۔
دستاویزات اور شواہد کی پیشکش، کسی کیس میں تحقیقات کے لیے یا شواہد کی تلاش کے لیے سرچ وارنٹ کا حصول، تفتیش کے دائرہ کار میں آنے والی جائیداد کی قرقی بھی اس قانون کے تحت کی جا سکے گی۔
اس کے علاوہ کسی بھی کیس کی تفتیش یا تحقیقات میں معاونت کرنے والے شخص کو اس کی مرضی کے ساتھ پاکستان بلایا جا سکے گا یا پاکستان سے باہر اسے دوسرے ملک بھیجا جا سکے گا۔
اس قانون کے تحت کسی شخص کے پاس موجود الیکٹرونک معلومات، جو کسی کمپیوٹر میں محفوظ ہوں، بھی فراہم کی جا سکیں گی۔ کسی شخص کی معلومات جو کسی سروس پرووائیڈر کے پاس ہوں، انہیں بھی دوسرے ملک کے ساتھ شیئر کیا جا سکے گا۔
اس بل کے بارے میں پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون ملائیکہ بخاری کہتی ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے لیے یہ قانون سازی ضروری تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی وجہ سے ضروری تھا کہ پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ معلومات کا باضابطہ تبادلہ کرے۔ لیکن یہ یک طرفہ نہیں ہو گا بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی معاہدے کے بعد ہی معلومات کا تبادلہ ممکن ہو سکے گا۔
ملائیکہ بخاری کے بقول اس بارے میں اپوزیشن نے اچھے رویے کا مظاہرہ کیا اور ہم نے بھی ان کی جائز ترامیم قبول کرتے ہوئے انہیں قانون کا حصہ بنایا۔
اپوزیشن نے کیا ترامیم پیش کیں؟
اپوزیشن کی طرف سے اس بل کے مسودے میں جو ترامیم پیش کی گئی تھیں ان کے مطابق اتھارٹی میں سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری قانون کو بھی شامل کرنے سفارش کی گئی تھی جو بل میں شامل کر دی گئی۔
اپوزیشن کی ترامیم میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ ایم ایل اے بل کے تحت تشکیل پانے والی اتھارٹی کی کارکردگی کی نگرانی پارلیمان سے بھی کرائی جائے۔ حکومت اس ترمیم پر بھی رضا مند ہو گئی جس کے بعد اسے قانون میں شامل کر دیا گیا ہے۔
'میوچوئل لیگل اسسٹنس بل' کی ترامیم بھی منظور کر لی گئی ہیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی پیش کردہ ترامیم شامل ہیں۔ اپوزیشن میں شامل جمعیت علمائے اسلامی، جماعت اسلامی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور آزاد ارکان نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔
بل کی مخالف جماعتوں میں شامل جماعتِ اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ یہ بل پاکستان کو ہمیشہ کے لیے 'آئی ایم ایف' اور 'ورلڈ بینک' کی غلامی میں دھکیلنے کے لیے پاس کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے ماضی کی طرح حکومت کے خاموش سہولت کاروں کا کردار ادا کیا ہے۔ اس بل کے تحت پاکستانی شہری دوسرے ملکوں کے حوالے کیے جائیں گے۔
بل پر اپوزیشن کے اعتراضات پر وکیل علی ظفر کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے بعض اعتراض بلا جواز تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت پاکستان کچھ بھی یک طرفہ طور پر نہیں کر سکتا بلکہ اس معاملے میں دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے بھی کرنا ہوں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب بھی کوئی معاہدہ ہوگا تو اس کے بارے میں مکمل معلومات بھی فراہم کی جائیں گی۔ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی معاہدہ خفیہ رکھ کر کیا جا سکے۔ بہرحال اپوزیشن نے اپنی ترامیم دیں جنہیں منظور کر لیا گیا ہے۔
لمیٹڈ لائیبلیٹی پارٹنر شپ ترمیمی بل 2020 کیا ہے؟
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں یہ بل منظور کیا گیا۔ اس دوران سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، وزارتِ خزانہ کے حکام اور ڈی جی فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) نے کمیٹی کے ارکان کو بریفنگ بھی دی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ بل میں ترامیم سے بینیفشل آنر کا نام اور ملکیت ظاہر کرنا لازمی ہو گا۔ خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
ڈی جی ایف ایم یو نے کمیٹی کو بتایا کہ 20 لاکھ روپے سے زائد کی جیولری خریدنے پر شناختی کارڈ کی کاپی فراہم کرنا لازمی ہو گا اور خریدار کی معلومات متعلقہ محکمے کو دی جائیں گی۔
بل پر اپوزیشن کے بعض ارکان نے شدید اعتراض بھی کیا۔ کمیٹی رکن نوید قمر نے کہا اتنی کم رقم کے تعین سے کاروبار رک جائیں گے۔ کیا حکومت بندوق کی نوک پر ترامیم چاہتی ہے؟
اجلاس میں عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کا نزلہ پاکستان پر ہی گِر رہا ہے۔ 'فیٹف' جو کسی دوسرے ملک سے نہیں کرا رہا، وہ پاکستان سے کرا رہا ہے۔
اس پر مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ 'فیٹف' کا معاملہ کسی ایک حکومت کا نہیں بلکہ یہ ملک کا معاملہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا بڑی مشق ہے۔ ہم اب تک 27 میں سے 14 سفارشات پر عمل درآمد کر چکے ہیں۔ باقی 13 سفارشات پر عمل کے لیے بلز میں ترامیم ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کے کچھ مستقل مسائل ہیں جو کسی ایک حکومت کے نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہر دور میں برآمدات نہیں بڑھیں اور سرمایہ کاری نہیں آئی۔ ترقی پذیر ممالک کے کچھ مسائل مستقل ہوتے ہیں۔
عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ہم ایف اے ٹی ایف کے غلام نہیں ہیں۔ ہمیں ایف اے ٹی ایف کی من و عن ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں۔ ایف اے ٹی ایف کاروباری ماحول کو خراب کرنے کا نہیں کہہ رہا ہے۔
انہوں نے منی لانڈرنگ ایکٹ ترمیمی بل میں نیب کو شامل کرنے کی مخالفت کی اور کہا کہ پرائیویٹ بزنس کا نیب سے کوئی تعلق نہیں۔ بزنس مینز کے نیب میں سالہا سال سے کیسز چل رہے ہیں۔
البتہ اپوزیشن اراکین کے ان اعتراضات کے باوجود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں یہ بل منظور کر لیا گیا ہے۔