رسائی کے لنکس

اپوزیشن کی تجاویز مسترد، قومی اسمبلی سے ایف اے ٹی ایف سے متعلق دو بل منظور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دیے گئے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ 2020 میں ترمیم اور اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل ایکٹ 1948 میں ترمیم کے بلز کی منظوری دے دی ہے۔

ان قوانین میں ترامیم کے لیے حکومت اور حزب اختلاف میں مفاہمت کی کوشش ناکام رہی تھی جب کہ اپوزیشن کی تحاریک کو مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران ترمیمی بل منظور کیے گئے۔

انسدادِ دہشت گردی ترميمی بل ميں ترميم کی شق وار منظوری کے دوران اپوزيشن ارکان شور شرابہ کرتے رہے۔ اپوزيشن نے اسپيکر ڈائس کا گھيراؤ کيا اور نعرے بازی کی۔

شور شرابے میں حکومت نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ایکٹ 1948 میں بھی ترمیم کا بل بھی منظور کر لیا ہے۔

انسدادِ دہشت گردی ترمیمی بل ہے کیا؟

قومی اسمبلی میں پاس ہونے والے انسدادِ دہشت گردی ترمیمی بل میں پہلی مرتبہ معاشی دہشت گردی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی بھی غیر رسمی چینل جیسے ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے پاکستان سے بیرون ملک رقم یا فنڈز کی منتقلی، کسی ایجنٹ کے ذریعے ایک ماہ میں 5 کروڑ روپے یا اس سے زائد ایک یا اس سے زیادہ ٹرانزیکشنز کی گئی ہوں۔

بل میں غیر رسمی چینلز کے ذریعے رقم کی منتقلی کے کیسز پر انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے اطلاق کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات بڑھ گئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تحقیقات کے لیے ملزم کو تین ماہ تک قید میں رکھ سکتے ہیں جب کہ کسی بھی مشتبہ مقام پر سرچ آپریشن کر سکتے ہیں۔

اس بل پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے دو ارکان عبد القادر پٹیل اور آغا رفیع اللہ نے اختلافی نوٹ جمع کرایا ہے۔

حکومت کے مطابق یہ بل ایف اے ٹی ایف کی بعض ضروریات کو پورا کرنے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1267 اور 1373 کے مطابق متعارف کروایا گیا تھا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون وفاقی اور صوبائی حکام کو اختیار دیتا ہے کہ وہ مشتبہ شخص کو تفتیش کے لیے حراست میں لیں۔ کوئی بھی شخص جس کے خلاف یہ یقین کرنے کی معقول وجہ ہو کہ وہ اس قانون کے تحت کسی جرم میں ملوث ہے، اسے تین ماہ تک تفتیش کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

ذیلی دفعہ (1) کے تحت نظر بندی کی منظوری کسی مخصوص یا عام حکم کے ذریعے سیکریٹری داخلہ دے سکتے ہیں۔

بل میں مسلح افواج یا پیرا ملٹری فورسز کے اہلکاروں کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے حوالے سے بھی ذکر شامل ہے۔

بل کے مطابق جہاں سیکشن 4 کی دفعات یعنی فوج یا پیرا ملٹری فورسز کا کوئی اہلکار مطلوب ہو، وہاں سیکریٹری داخلہ کے ذریعے ان اداروں کو مطلع کیا جائے گا۔

اسی طرح ملزمان کی حراست کی مدت میں آئین کے آرٹیکل 10 کی دفعات کے تحت مزید تین ماہ کی توسیع بھی دی جاسکتی ہے۔

بل میں کہا گیا کہ معاملے کی تحقیقات کسی پولیس افسر کے ذریعے کی جا سکتی ہے جو سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کے عہدے سے کم نہ ہو یا جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے توسط سے حکومت کو مطلع کیا جائے جس میں ایس پی یا اس سے بڑے عہدے کا پولیس افسر بھی شامل ہو۔

پیش کردہ بل کی ایک اور ذیلی سیکشن میں کہا گیا ہے کہ حراست میں موجود شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں ان کیمرہ پیش کیا جائے گا اور اس کی حراست میں لینے کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیا جائے گا۔

ذیلی دفعہ 6 کے مطابق پولیس افسر یا جے آئی ٹی کو جرم کے حوالے متعلقہ مواد، ملزم کی تلاش، گرفتاری اور جائیداد ضبط کرنے سے متعلق تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔ ان کے پاس وہ تمام اختیارات ہوں گے جو قانون یا ضابطہ یا کسی دوسرے قانون کے تحت ہونے والے جرائم کی تحقیقات کے سلسلے میں ایک پولیس افسر کے پاس ہوتے ہیں۔

بل کے مطابق حراست میں لیے گئے شخص کو یہ حق ہو گا کہ اگر وہ سیکریٹری داخلہ کے حکم سے حراست میں لیا گیا ہے تو وہ وزیرِ داخلہ سے اپیل کرے اور اگر اسے صوبائی ہوم سیکریٹری کے حکم سے حراست میں لیا گیا ہے تو وہ سیکریٹری داخلہ سے اپیل کر سکتا ہے۔

بل کے مطابق اگر سیکریٹری داخلہ نے حکم جاری کیا ہو تو پھر تحقیقاتی کمیٹی میں سیکریٹری داخلہ خود چیئرمین اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، کسٹمز کے اراکین، ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کے ڈی جی، ڈی جی انسداد منشیات فورس سمیت انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے نمائندے بطور ممبر شامل ہوں گے

سزاؤں میں اضافہ

بل میں سزا میں اضافے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں جرمانے کی رقم ایک کروڑ روپے سے بڑھا کر دو کروڑ 50 لاکھ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ غیر قانونی رقم کی منتقلی کے ذریعے دہشت گردی کی مالی اعانت میں ملوث پائے جانے والوں کے لیے 10 سال قید کی سزا متعارف کرایا جانا بھی شامل ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ایکٹ 1948 میں ترمیم

قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ایکٹ 1948 (یو این ایس سی آر) کے متن میں کہا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 اگرچہ کہ اپنی وسعت میں جامع ہے مگر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 1267 اور 1373 کے اطلاق کی نسبت بعض احکامات کی کمی ہے۔

بل کے متن کے مطابق یو این ایس سی آر کو اقوامِ متحدہ کے منشور کے باب ہفتم کے آرٹیکل 41 کے تحت اختیار کیا گیا جو اقوام متحدہ کے تمام ارکان کے لیے لازم ہے۔ یو این ایس سی آر 1267 کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی رکن ریاستیں اثاثہ جات منجمد کرنے، اسلحے کی بندش، سفری پابندیوں کی فہرست میں شامل اداروں اور افراد پر سفری پابندی کے اقدامات کی تعمیل کی جائے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ یو این ایس سی آر 1373 رکن ریاستوں سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کا اطلاق کریں۔ بالخصوص ملکی قوانین کے تابع دہشت گردی میں مالی معاونت خاتمہ کیا جائے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ اجلاس

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ایک روز قبل ہونے اجلاس کو بریفنگ میں ڈائریکٹر جنرل فنانشل مانیٹرنگ یونٹ لبنیٰ فاروق ملک نے بتایا تھا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 40 نکاتی ایکشن پلان دیا ہے۔ پاکستان ان سفارشات میں سے 10 پر عمل درآمد کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اینٹی منی لانڈرنگ بل میں جرائم کہ سزائیں بڑھائی گئی ہیں۔ نان بینکنگ سروسز کی نگرانی بڑھائی جا رہی ہے۔ تاہم دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 6 اگست کو رپورٹ ایف اے ٹی ایف کو بھجوائے گا۔ اینٹی منی لانڈرنگ کی رپورٹ ایشیا پیسیفک گروپ کو ستمبر میں ارسال کی جائے گی۔

لبنیٰ فاروق نے کہا کہ اگست میں قانون سازی نہ ہوئی تو تاخیر ہو سکتی ہے۔ قانون مزید سخت کیا جا رہا ہے جب کہ جرائم کی سزائیں بڑھائی جا رہی ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کا ردعمل

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کےچیئرمین راجہ خرم نواز نے قانون سازی مکمل ہونے پر کہا کہ اس بل کے پاس ہونے سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد ملے گی۔

راجہ خرم نواز نے کہا کہ اس بل کے حوالے سے ہماری کوشش تھی کہ اس پر اتفاق رائے ہو۔ اس بارے میں اپوزیشن کی مختلف تجاویز کو بھی بل میں شامل کیا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنا اور وائٹ لسٹ میں لانا ہمارا عزم ہے۔

ان کے بقول ہندوستان ہمیں بلیک لسٹ میں ڈالنا چاہتا ہے تاکہ ہم پر پابندیاں عائد ہوں اور پاکستان مشکلات کا شکار ہو۔ اس صورتِ حال میں ہمیں ٹائم بارڈ بلز پر قانون سازی کرنا تھی تاکہ ہماری رپورٹ ایشیا پیسفک گروپ کو ارسال کی جا سکے اور آئندہ اجلاس میں پیش کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن کو اس قانون سازی کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے اسے نیب قانون کی ترمیم سے مشروط کیا۔

ان کے بقول ہم نے اپوزیشن کو مسودہ پیش کیا تھا جو انہیں پسند نہیں آیا اور جو مسودہ انہوں نے پیش کیا اس میں انہوں نے 34 ترامیم کا مطالبہ کیا تھا۔ ہم نے اس کا شق وار جائزہ لیا۔ اگر ان کی تجاویز کو تسلیم کرتے تو احتساب کا عمل بے معنی ہو جائے گا۔

ایوان میں اپوزیشن نے ان بلز پر شدید اعتراض کیا اور انہیں ڈریکونین قوانین قرار دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ نے کہا کہ حکومت نے ہم پر نیب قوانین سے مشروط کرنے کا الزام عائد کیا لیکن ایسا نہیں ہے۔

ان کے بقول جب انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قانون پر عمل درآمد ہو گا تو عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے جو تجاویز دی تھیں حکومت نے ان میں سے کچھ کو تسلیم کیا لیکن بعض ترامیم کو نظر انداز کیا گیا جس پر ہم نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی پاکستان کے لیے ڈیڈلائن

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے اپریل میں پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے خلاف 13 فول پروف انتظامات سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کے لیے 5 ماہ کا اضافی وقت دیا تھا۔

ایف اے ٹی ایف نے 21 فروری کو یہ کہا تھا کہ پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لیے دی گئی تمام ڈیڈ لائن ختم ہو چکی ہیں اور صرف 14 نکات پر بڑے پیمانے پر مکمل عمل ہوسکا جب کہ 13 اہداف چھوڑ دیے گئے تھے۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تیزی سے اپنے پورے ایکشن پلان کو جون 2020 تک مکمل کرے ورنہ اسے نگرانی کے دائرہ اختیار کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا جسے عام طور پر واچ ڈاگ کی بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG