سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ آئین کے تحت صوبے میں انتظامی اختیار سیاسی جماعتوں کو نہیں بلکہ صوبائی حکومت کو حاصل ہے جس سے پیپلز پارٹی کسی صورت دست بردار نہیں ہو گی۔
انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ صوبائی حکومت آئین اور قانون کے تحت کام کرنا چاہتی ہے اور اسے ایسا کرنے دیا جائے۔
واضح رہے کہ کراچی میں وفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والی نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل افضل احمد، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر علی حیدر زیدی، وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، اور وفاق میں تحریکِ انصاف کی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر امین الحق کے مابین ہفتے کی رات ملاقات ہوئی تھی۔
اس ملاقات کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ ملاقات میں کراچی کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مل کر کام کرنے پر اتفاق کرلیا ہے تاکہ شہر کی مشکلات کا سدِ باب کیا جا سکے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس مقصد کے لیے شہر کے مینڈیٹ کی دعوے دار تینوں سیاسی جماعتوں نے ایک کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔
تاہم اس ملاقات کے بعد بھی پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم کی صوبائی قیادت کی بیان بازی اور مؤقف میں وہی لب و لہجہ برقرار ہے جو اس ملاقات سے قبل تھا۔
پیر کو وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس اجلاس کی تصدیق کی اور اس ملاقات کو وفاقی حکومت کی جانب سے خوش آئند اقدام قرار دیا۔
لیکن انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ان کی حکومت آئین اور قانون کے تحت کام کرنا چاہتی ہے اور آئین کے تحت صوبے میں انتظامی اختیار صوبائی حکومت کا ہے جس سے وہ اور ان کی پارٹی کسی صورت دست بردار نہیں ہو گی۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں سندھ کو 245 ارب روپے کم فراہم کیے جس کی وجہ سے صوبے کا ترقیاتی بجٹ متاثر ہوا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے باوجود کراچی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے 12 سال کے دوران بہت سے ترقیاتی کام کرائے ہیں جن کی وجہ سے اس بار بارشوں کے دوران ماضی سے کم مالی اور جانی نقصان ہوا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ شہر میں رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیاں شروع کی گئیں، نالوں پر ہوٹل بنا دیے گئے، گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کے پلرز منع کرنے کے باوجود نالوں پر بنائے گئے۔ لیکن ان کے بقول صوبائی حکومت نے این ای ڈی یونیورسٹی کی تحقیق کی روشنی میں یہ مسائل حل کیے اور تین سال میں ان نقائص کو دور کرنے کے لیے 27 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی۔
'اتفاق خوش آئندہ، مگر نتائج دور رس نظر نہیں آتے'
شہر کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کراچی کے مسائل کے حل پر اتفاقِ رائے کی خبروں کو اگرچہ تجزیہ کار اور ماہرین ایک پیش رفت تو ضرور قرار دے رہے ہیں، مگر ان کے خیال میں فی الحال اس کے کوئی دور رس نتائج ہوتے نظر نہیں آتے۔
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے بقول ابھی یہ واضح نہیں کہ تینوں جماعتوں کے درمیان شہر کے معاملے پر کوئی مفاہمت ہوئی ہے کیوں کہ اب تک اس بارے میں کوئی عملی چیز سامنے نہیں آئی اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملاقات ہوئی نہیں بلکہ کرائی گئی ہے۔
ان کے بقول ایسے میں اگر ملاقات کرائی گئی ہے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مفاہمت میں خوش دلی بہرحال نہیں پائی جاتی۔
مظہر عباس کے مطابق ابھی بہت سے "اگر مگر" شامل ہیں اور 'ٹرمز آف ریفرنس' سامنے آنے پر ہی کوئی ٹھوس بات کہی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کی قیادت کے بیانات سے وہ اپنے اپنے مؤقف پر برقرار نظر آتے ہیں۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ترقیاتی کاموں کے لیے وفاقی حکومت اگر کوئی مالی امداد دیتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس فنڈ کے ٹھیک استعمال کے لیے ایک کمیٹی بنا دی جائے۔ لیکن اس سے آگے جاتے ہوئے معاملات فی الحال نظر نہیں آتے۔
بعض ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کسی قانونی اور آئینی حل سے قبل ایک سیاسی حل کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں کہ وفاقی حکومت نے وزیرِ قانون فروغ نسیم کی اس تجویز پر بھی غور کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت کراچی کا کنٹرول براہِ راست وفاق کے سپرد کیا جائے۔ سندھ میں برسرِ اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت اس تجویز کو سختی سے مسترد کرچکی ہے۔
سندھی روزنامے 'عوامی آواز' کے ایڈیٹر اور تجزیہ کار عبد الجبار خٹک کے خیال میں تینوں سیاسی جماعتوں کو قریب آنے پر کسی چوتھی طاقت نے آمادہ یا مجبور کیا ہوگا۔ لیکن ان کے بقول وزیرِ اعلیٰ سندھ کے بیان سے ایسا بالکل نہیں لگتا کہ تینوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ملکی ادارے آئین کے تحت اپنے کام سر انجام دینے کے بجائے اس سے تجاوز کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے کام میں دخل اندازی کا سلسلہ جاری ہے۔
عبد الجبار خٹک کے خیال میں اسی وجہ سے معاملات ٹھیک ہونے کے بجائے خراب ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی انتظامی اتھارٹی اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے بقول صورتِ حال سے ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے سیاسی اور انتظامی معاملات کو بالکل بھی چھیڑا نہیں گیا اور اس پر کوئی بات چیت بھی نہیں کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شہر کے مسائل حل کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہے تو بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے سیاسی عزم کی کمی، مصلحتیں، شہری اور دیہی تقسیم جیسے عوامل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
ان کے خیال میں کم سے کم تو یہ ہو سکتا ہے کہ مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا جائے لیکن اگر مقامی حکومتوں کے اختیارات صوبائی یا وفاقی حکومت اپنے پاس رکھ لیں تو اس سے بہرحال بدگمانی رہتی ہے اور ایسے صوبے میں جہاں شہری اور دیہی تفریق بہت زیادہ نظر آتی ہے، اس قسم کی بدگمانیوں کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔