سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی مقامی حکومتوں نے اگست 2016 میں اپنے عہدوں کا چارج سنبھالا۔ اس طرح تقریبا آٹھ برس بعد کراچی کو منتخب مقامی حکومتیں میسر آسکیں جن کی مدت اب ختم ہو چکی ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی میں 308 میں سے سب سے زیادہ یعنی 214 نشستیں حاصل کرنے والی ایم کیو ایم کے وسیم اختر نے جیل سے پیرول پر مختصر رہائی ملنے پر 30 اگست کو کراچی کے 29ویں میئر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
وسیم اختر کے سامنے گویا شہر کے حل طلب مسائل کا انبار موجود تھا۔ لیکن انہیں بارہ دری کے خوبصورت سبزہ زار میں حلف برداری کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری کی بھی اجازت نہ دی گئی اور انہیں دوبارہ سینٹرل جیل کراچی پہنچا دیا گیا جہاں وہ دہشت گردی کے مقدمات سمیت 39 مقدمات میں گرفتاری کاٹ رہے تھے۔
پھر ڈھائی ماہ بعد 16 نومبر 2016 کو میئر کراچی وسیم اختر کو تمام مقدمات میں ضمانت ملنے پر رہائی ملی اور وہ کہیں جاکر اپنا دفتر سنبھالنے کے قابل ہوئے۔
وسیم اختر کا کہنا ہے کہ اُنہیں وراثت ہی میں ابتر اور غیر فعال بلدیاتی حکومت ملی۔ بے پناہ مسائل اور مایوس کن صورتِ حال کے باوجود شہر کی ترقی کا سفر شروع کیا۔
اُن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بلدیاتی حکومت کے مختلف محکموں میں اصلاحات کا بیڑا اٹھایا۔
وسیم اختر کے بقول چار برسوں کے دوران اُن کی توجہ بلدیہ کے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے اور تمام تر وسائل کو شہریوں کے لیے بروئے کار لانے پر تھی۔
انہوں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں دیے گئے اختیارات کے تحت شہر میں نئے اور پرانے پارکس کی تعمیر و مرمت، تجاوزات کا خاتمہ، نئے قبرستانوں کے لیے زمین کی نشاندہی اور وہاں ترقیاتی کام کرائے گئے۔ سڑکوں کے ساتھ گرین بیلٹ کو سنوارا گیا، چڑیا گھروں کو بہتر بنایا گیا، لائبریریز کو بہتر بنایا گیا جب کہ کشمیر روڈ پر فٹ بال اور ہاکی گراؤنڈ تکمیل کے مراحل میں ہے۔
وسیم اختر کے مطابق شہر کے مسائل حل نہ ہونے کی براہِ راست ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہے جو تمام تر اختیارات کے باوجود بھی مجرمانہ غفلت اور اختیارات پر تو قابض رہی مگر انہیں عوام کی بہتری کے لیے استعمال نہیں کیا۔
وسیم اختر نے بتایا کہ اُن کی سب سے بڑی کامیابی کراچی کا کیس جرات سے لڑنا ہے جس کی وجہ سے اب وفاق اور صوبے میں برسرِ اقتدار دونوں حکومتیں شہر کے پیچیدہ اور گھمبیر مسائل کے حل کے لیے فکر مند دکھائی دیتی ہیں۔
وسیم اختر نے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے صدر، وزیرِ اعظم، گورنر سندھ، وزیرِ اعلیٰ سندھ اور چیف سیکریٹری کو متعدد خط لکھے جن میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کو مزید اختیارات اور وسائل فراہم کرنے کی درخواست کی تاکہ ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں کے مسائل، ریٹائرڈ ملازمین کے بقایا جات، ترقیاتی بجٹ میں اضافے اور دیگر مسائل حل کیے جائیں۔ ان کے بقول ان خطوط کا نہ تو جواب ملا اور نہ ہی یہ مسائل حل کیے گئے۔
وسیم اختر نے اپنی چار سالہ مدت کے دوران کئی مواقعوں پر اختیارات نہ ہونے کا شکوہ بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 اور بعد میں کی جانے والی ترامیم کے تحت بلدیاتی اداروں کو آمدنی سے محروم کر دیا گیا ہے اور آمدن کے لحاظ سے اہم ترین شعبے صوبائی محکموں کو دے دیے گئے ہیں جس سے بلدیہ عظمیٰ کراچی مالی لحاظ سے کمزور ہو گئی حتیٰ کہ اس کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہیں بچتے۔
ان کے بقول پانی کی فراہمی، نکاسی آب، بلڈنگ کنٹرول، ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ، کچی آبادیاں، آبادیوں کو لیز کی فراہمی اور ماسٹر پلان جیسے شعبے بھی میئر کے پاس نہیں حتیٰ کہ میئر کو گریڈ 16 اور اس کے اوپر کے افسران کے ٹرانسفر کا اختیار بھی نہیں دیا گیا۔
ایم کیو ایم اور میئر کراچی کا مؤقف رہا ہے کہ ان اہم اختیارات سے بلدیاتی حکومت کو محروم کرنا درحقیقت آئین کے آرٹیکل 140 کی نفی ہے جس کے تحت بااختیار اور مالی وسائل کے ساتھ بلدیاتی حکومتوں کا قیام ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کا مؤقف رہا ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں اس مقصد کے لیے تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
'گزشتہ چار برس کراچی کے لیے بدترین سال تھے'
سابق میئر کراچی وسیم اختر کے سیاسی مخالفین اور بلدیہ عظمیٰ کی مزدور یونینز ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں اور ان پر کھلے عام تنقید کرتی نظر آتی ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کی سٹی کونسل میں حزب اختلاف کے رہنما اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق چیئرمین کرم اللہ وقاصی کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار سال کراچی کی تاریخ میں بدترین سال تھے جس میں بلدیہ عظمیٰ شہر میں کوئی ایک بھی ترقیاتی کام نہیں کرا سکی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ شہر میں چار برسوں کے دوران ترقیاتی بجٹ کے نام پر خرچ کیے جانے والے اربوں روپے کہاں گئے؟
کرم اللہ وقاصی میئر کراچی پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترقیاتی رقم خرد برد ہوئی، اس میں دھوکہ بازی کی گئی اور صرف کاغذوں میں کام دکھائے گئے اور اس دوران بلدیہ کی آمدنی کو جان بوجھ کر بڑا نقصان پہنچایا گیا۔
کرم اللہ وقاصی کے مطابق بلدیہ کے 16 ہزار ملازمین میں سے محض چند ہزار ڈیوٹیوں پر باقاعدہ آتے ہیں، حاضریوں کا ریکارڈ تک کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا جا سکا جب کہ بلدیہ کے تحت ہر محکمہ غیر فعال ہو چکا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ حزبِ اقتدار کے چیئرمینز کو بھی اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز نہ مل سکے۔ کرم اللہ وقاصی کے بقول انہوں نے بارہا اس پر آواز اٹھائی لیکن ایکشن نہیں لیا گیا۔
کرم اللہ وقاصی نے کہا کہ پارکس، ویٹرنری، لائبریرز، سڑکوں کی تعمیر و مرمت وغیرہ کے لیے قائم کسی بھی ذیلی کمیٹی کا چار سال میں ایک بھی اجلاس نہیں بلایا گیا۔
اس سوال پر کہ صوبے میں برسرِ اقتدار ان کی جماعت نے، جس کے پاس بلدیاتی حکومت کو تحلیل اور مئیر کو گھر بھیجنے کے بھی اختیارات تھے، تو ان اختیارات کو کیوں استعمال نہ کیا؟ اس پر کرم اللہ وقاصی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان اختیارات کا استعمال اس لیے نہیں کیا تاکہ ایم کیو ایم کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ پیپلز پارٹی جمہوری اداروں کو چلنے نہیں دیتی اور میئر کے کام میں رکاوٹیں ڈالتی ہے۔
فاروق ستار بھی وسیم اختر کی کارکردگی سے مایوس
سابق میئر کراچی اور ایم کیو ایم کے ناراض رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی وسیم اختر کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک جانب سندھ حکومت نے کمزور بلدیاتی نظام دے کر بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات سے جان بوجھ کر محروم رکھا وہیں وسیم اختر کی نااہلی کے باعث شہر کے مسائل حل ہونے کا نادر موقع ہاتھ سے جانے دیا گیا۔
ان کے بقول وسیم اختر اور ان کی ٹیم کی ترجیحات شہر کے مسائل حل کرنا رہا ہی نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سے لاتعلقی کے اعلان کے بعد جب ایم کیو ایم کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالی اور میئر کراچی وسیم اختر نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو اُنہیں شہر میں سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر کچرا اٹھانے پر زور دیا۔
ان کے بقول شروع میں ہم نے یہ حکمت عملی اپنائی تھی کہ ہماری جماعت چار کے بجائے صرف تین سال بلدیاتی حکومت چلائے گی جس کے بعد استعفے دے کر عوام میں جائیں گے اور بلدیاتی اداروں کے لیے زیادہ اختیارات اور کراچی کے حقوق کے لیے تحریک چلائیں گے، مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
فاروق ستار نے کہا کہ اگرچہ سندھ ویسٹ مینجمنٹ کے اختیارات سندھ حکومت نے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے لیکن اگر میئر چاہتے تو یہ کام ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز سے مل کر کر سکتے تھے۔ لیکن ان کے خیال میں بلدیہ عظمیٰ کو چلانے والوں یعنی میئر کراچی کی ترجیحات مختلف تھیں۔
فاروق ستار نے مزید کہا کہ کارکردگی نہ دکھانے کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ یا تو آپ نااہل ہیں یا پھر مذموم مقاصد کے لیے کام کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے پاس یہ نادر اور آخری موقع تھا کہ وہ اپنی کارکردگی سے ایک بار پھر کراچی کے عوام کے دل جیت لیتی لیکن مدت مکمل ہو جانے کے بعد وسیم اختر شہر کے ناکام ترین، نااہل اور بدترین کارکردگی کے حامل میئر ٹھیرے ہیں۔
کراچی کے مسائل
شہر میں پینے کے پانی کی شدید کمی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ نہ ہونے، نکاسی آب کا بوسیدہ نظام، آلودگی، پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے، تجاوزات کی بھرمار، مبینہ کرپشن، شہر کے انتظامی کنٹرول کی تقسیم سے جنم لینے والے مسائل اور بے ہنگم بڑھتی آبادی کے لیے کسی ٹاؤن پلاننگ کے فقدان سے کروڑوں کی آبادی کا یہ شہر کئی دیگر مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ کے مطابق کراچی گزشتہ کئی سالوں سے دنیا کے دس رہنے کے لیے بدترین شہروں میں شمار ہو رہا ہے۔
نئے بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں
بلدیاتی مدت پوری ہونے کے بعد سندھ بھر میں میئر، ڈپٹی میئرز اور مقامی حکومتوں کے دیگر منتخب اراکین کے عہدے ختم ہو چکے ہیں اور صوبے میں ان بلدیاتی اداروں میں نگران ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری پر غور جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الوقت مستقبل قریب میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات جلد ہوتے نظر نہیں آ رہے جب کہ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے صوبے بھر میں یونین کمیٹیوں، یونین کونسلز اور وارڈز کی نئی حد بندی کے لیے شیڈول بھی جاری کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے شیڈول کے تحت 30 اکتوبر تک حلقوں کی حد بندیوں کو شائع کیا جا سکے گا۔
سندھ حکومت نے صوبے میں رائج بلدیاتی قوانین میں تبدیلیوں کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت کے لیے تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی جا چکی ہے۔