رسائی کے لنکس

پاکستان میں صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر حملے، اقوامِ متحدہ کا اظہار تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوام متحدہ نے پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنون پر حملوں اور تشدد کی دھمکیوں کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنے والوں کو تحفظ کے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان روپرٹ کول ویل نے منگل کو جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں، بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کے خلاف آن لائن اور آف لائن تشدد پر اکسانے کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویش ناک ہیں۔

ترجمان کے مطابق ایسے حملوں میں اکثر توہین مذہب کے الزام کا استعمال کیا جاتا ہے اور صحافیوں کو آن لائن ہدف بنانے کے علاوہ انہیں جسمانی طور پر بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

روپرٹ کول ویل نے چند سماجی کارکنوں پر توہین مذہب کے الزامات کو خصوصی طور پر پریشان کن قرار دیا اور کہا کہ ایسے الزامات ان افراد کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ حالیہ واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ توہینِ مذہب کے قانون کو انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور فن کاروں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں صحافیوں پر ریاستی جبر میں اضافہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:45 0:00

خیال رہے کہ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اس سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اگست کے آخر میں پاکستان بھر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے توہین مذہب کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کے کمشنر کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے بلوچستان کے ضلع کیچ میں قتل ہونے والی صحافی شاہینہ شاہین کا حوالہ بھی دیا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کم از کم چار پاکستانی صحافیوں اور بلاگرز کو اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ ایسے مقدمات میں ملوث افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔

انہوں نے پاکستان کی خواتین صحافیوں کے اس مشترکہ بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت پر تنقید کرنے پر ان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔

روپرٹ کا مزید کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے جنیوا میں موجود دفتر نے پاکستانی حکومت کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فوری اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے دھمکیوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔

صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) سے وابستہ اقبال خٹک کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کمشنر کی یہ رپورٹ ان خدشات کو تقویت دے رہی ہے جس کا اظہار پاکستان کے صحافتی اور انسانی حقوق کے حلقے عرصہ دراز سے کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آن لائن ہراساں کیے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات سے خواتین صحافی زیادہ متاثر ہو رہی ہیں اور اُنہیں اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اپنے حالیہ مشترکہ بیان میں حکومت و سیاسی جماعتوں سے سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کے تدارک کا مطالبہ کیا تھا۔

خواتین صحافیوں کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اُنہیں ہراساں کرنے کے واقعات اور نازیبا زبان کا استعمال بڑھ رہا ہے جس سے اُنہیں اپنے صحافتی فرائض سرانجام دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

حکومتِ پاکستان کا موقف

پاکستان کے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ کو سنجیدہ لیا جانا چاہیے تاہم یہ عالمی ادارے کشمیر اور فلسطین میں مظالم پر بھی اپنی خاموشی توڑیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں اس بات کی نفی کی تھی کہ پاکستان میں صحافتی پابندیاں بڑھ رہی ہیں۔

ملک میں آزادی اظہار رائے سلب کرنے کے الزامات کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں شواہد دکھائے جائیں کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر کیسے پابندی لگائی جا رہی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ گزشتہ دو سال میں صرف ایک صحافی اغوا ہوا جو چند گھنٹوں کے بعد واپس آ گئے تھے۔

سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین مصطفی نواز کھوکھر نے اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسوس ناک صورت حال ہے کہ آج پاکستانی میڈیا پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے تاکہ پاکستان، بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں انسانی حقوق اور صحافتی پابندیوں کا مقدمہ بہتر انداز میں اٹھا سکے۔

مصطفی کھوکھر کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ کے روایتی پلیٹ فارمز اپنی ساکھ کھو چکے ہیں اور اسی بنا پر لوگ سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG