پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے درمیان بالآخراس پر اتفاق ہو گیا ہے کہ بینک، ایف بی آر کو کسی بھی اکاؤنٹ ہولڈر کے رقم نکلوانے، جمع کروانے، کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی اور قرض پر منافع سے متعلق دیگر معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔
حکام کے مطابق اس عمل سے بینکنگ چینل میں آنے والی غیر دستاویزی اور مشکوک رقوم کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔
یہ معلومات انکم ٹیکس آرڈینینس 2001 کے سیکشن 165 اور 165-اے کے تحت بورڈ آف ریونیو کو فراہم کی جائیں گی۔
اس قانون کے تحت ٹیکس حکام کو قومی شناختی کارڈ نمبر، گھر کا پتا، اس شخص کو ادا کی جانے والی رقوم کی تفصیلات، بینک اسٹیٹمنٹ اور دیگر اہم معلومات شامل ہیں۔
قانون کے تحت بینک ایسے اکاؤنٹ ہولڈرز کی الگ الگ فہرستیں جاری کرنے کے پابند ہوں گے جو 50 ہزار، 10 لاکھ، ایک کروڑ روپے یا اس سے زائد کی رقوم جمع کرتے یا نکلواتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ماہ کے دوران ڈھائی لاکھ روپے تک کی خریداری والے کریڈٹ کارڈز اور ایک سال میں کسی مد میں 5 لاکھ روپے سے زائد منافع حاصل کرنے والوں کی بھی فہرستیں مرتب کی جائیں گی۔
تاہم قانون میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ یہ تمام معلومات خفیہ رکھی جائیں گی اور انہیں صرف ٹیکس مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا۔
اگرچہ یہ قانون کئی سال سے نافذ تو ہے مگر مذکورہ سیکشن پر بینکوں کی مزاحمت کے باعث عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا۔ اور بینکوں نے صارفین کی معلومات افشا ہونے کے نکتے پر ہائی کورٹس سے حکمِ امتناع حاصل کر رکھا تھا۔
اس بارے میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور حکومتِ پاکستان کے مذاکرات کافی عرصے سے جاری تھے اور گزشتہ سال ہی اس کے متعلق ایسوسی ایشن نے ہائی کورٹ میں اپنی آئینی درخواست واپس لینے کا بھی اعلان کیا تھا۔
ایف بی آر کی جانب سے اس مقصد کے لیے تیار کردہ تکنیکی حل بینکوں کو باہم منسلک کرے گا جس کے ذریعے بینک فوری طور پر متعلقہ معلومات ایف بی آر کے ساتھ شئیر کریں گے۔
معلومات کا یہ تبادلہ 18 ستمبر 2020 سے قابلِ عمل ہو گا۔ ایف بی آر کے مطابق وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سادگی اور ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے ایف بی آر اور بینکوں کے مابین اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
بینک سے صارفین کی معلومات حاصل کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟
بینکنگ کے شعبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل کا مقصد جہاں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ہے۔ وہیں ناجائز یا مشکوک ذرائع آمدنی کے گرد گھیرا تنگ کرنا، بے نامی اکاؤنٹس کی روک تھام، منی لانڈرنگ یا دہشت گردی کے مقاصد کے لیے رقوم کی منتقلی کو روکنا ہے۔ تاکہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالا جا سکے۔
سابق بینکر اور معروف ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کے مطابق یہ فیصلہ مناسب ہے، کیوں کہ اس وقت ساری دنیا بالخصوص فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی کوشش ہے کہ منی لانڈرنگ، ناجائز دولت کے دہشت گردی سمیت دیگر جرائم میں استعمال کو روکا جائے۔
ان کے بقول ان معاملات میں شفافیت لائی جائے، جب کہ اس ماہ کے آخر میں پاکستان سے متعلق ایف اے ٹی ایف میں ایک اور رپورٹ پیش کی جانی ہے۔ اس لیے حکومتِ پاکستان نے متعدد بینکنگ قوانین میں بھی رد و بدل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ بینک میں اکاؤنٹ کھولنے پر صارف سے متعلق تمام تر معلومات حاصل کرنا ضروری ہیں۔ یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ اور اس کی آمدنی کا اس کے ذرائع سے مطابقت رکھنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جب ایف بی آر کسی مشکوک منتقلی یا بینک صارف سے متعلق کوئی تفتیش کرنا چاہتا تھا تو بینک عام طور پر اس بارے میں معلومات دینے سے کتراتے تھے اور تفصیلات نہ ہونے کی وجہ سے تفتیش آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومتِ پاکستان اور مرکزی بینک بھی چاہتے ہیں کہ مالی لین دین میں شفافیت لائی جائے۔ دوسری جانب ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے عالمی دباؤ بھی ہے۔ اس لیے فناشنل فورس کے تحفظات دور کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
اس عمل کا صارفین پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سے عام صارفین پر کوئی زیادہ اثر پڑے گا۔
ان کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ بینک نئے اکاؤنٹ کھولنے سے متعلق پہلے سے زیادہ محتاط ہو چکے ہیں اور نئے اکاؤنٹ ہولڈر کو مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان کے خیال میں اس بارے میں بینکوں کو زیادہ چوکنا تو رہنا ہو گا مگر اس کے ساتھ حقیقی اور اصل صارف کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ اس کی مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ معیشت کو دستاویزی اور سرمائے کو بینکنگ چینل میں لانے میں مدد مل سکے۔
صارفین کی خفیہ معلومات تو افشا نہیں ہوں گی؟
بعض ٹیکس ماہرین کے مطابق اس عمل سے لوگوں کی خفیہ معلومات افشا ہونے کا خطرہ موجود ہے اور اس بنیاد پر انہیں بلیک میل بھی کیا جا سکتا ہے۔
ٹیکس معاملات کے ممتاز وکیل محمد ذیشان مرچنٹ کے مطابق اسی نکتے کو بنیاد بنا کر بینک اتنے عرصے سے یہ معلومات دینے سے کترا رہے تھے کہ بینکنگ قوانین کے تحت صارف کی خفیہ معلومات کو افشا ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول اس سے قبل اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ یہ معلومات صرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور بورڈ ممبران ہی استعمال کر سکیں گے۔ مگر ظاہر ہے کہ جب وہ ممبران یا چیئرمین یہ کام اپنے ماتحت افسران سے کرائیں گے، تو اس سے ڈیٹا لیک ہونے کا خطرہ موجود تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بینکنگ ایسوسی ایشن کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے اور انہیں اعتماد میں لیا گیا ہے کہ یہ ڈیٹا صرف چیف ٹیکس کمشنر ہی استعمال کریں گے اور اس کے تحت بھی صرف مشکوک اکاؤنٹس کی محدود معلومات ہی کا تبادلہ کیا جائے گا۔
ذیشان مرچنٹ کے مطابق مشکوک ٹرانزیکشنز کی معلومات اگرچہ کسی نہ کسی طرح تو ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے پاس جمع ہوتی ہی رہی تھیں لیکن وہ محدود تھیں۔ اسی طرح یہ بینک قومی شناختی کارڈ کے تحت بھی یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ کس شخص کے اکاؤنٹ سے کتنی رقوم کی منتقلی پر ود ہولڈنگ ٹیکس منہا کیا گیا ہے۔
ان کے بقول ایسی معلومات کسی ایک جگہ اکھٹی نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس پر کوئی خاص ایکشن لینا کافی مشکل تھا۔ لیکن اس عمل سے یہ مشکل کافی حد تک دور ہو سکے گی۔
ذیشان مرچنٹ نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباََ پانچ کروڑ کے قریب بینک اکاؤنٹس ہیں۔ جب کہ ملک بھر میں ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد 26 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ٹیکس ادا کرنے والے 26 لاکھ لوگوں کے دس دس بینک اکاونٹس بھی ہیں۔ تو بھی ان کی تعداد دو کروڑ 60 لاکھ کے قریب ہی بنتی ہے۔
ان کے مطابق اگر اس مفروضے پر آگے چلا جائے تو بھی اس کا مطلب ہے کہ ڈھائی کروڑ لوگ ایسے ہیں جو بینک اکاؤنٹ تو رکھتے ہیں، لیکن ان کے ٹیکس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان معلومات ہی کو ٹھیک طریقے سے پرکھا جائے کہ کس کے شناختی کارڈ سے اس کا نیشنل ٹیکس نمبر نہیں مل پا رہا، مگر اس کی بینک ٹرانزیکشنز بے تحاشا ہو رہی ہیں، تو اس سے بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی باآسانی نشان دہی ہو سکتی ہے جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ اور پھر ایف بی آر ایسے لوگوں کے بارے میں نادرا اور اسٹیٹ بینک سے مزید ڈیٹا لے اور انہیں ٹیکس نوٹسز بھجوا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس عمل سے ہو سکتا ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈر بتائے کہ وہ تو فلاں کے پاس ڈرائیور ہیں، باورچی ہے یا وہ پان فرش ہے اور اس کے اتنے ذرائع آمدن ہی نہیں یا اسے کسی اور شخص نے اکاؤنٹ کھلوا کر دیا تھا اور وہی شخص ہی اس کا اکاؤنٹ استعمال کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو اس سے مشکوک، جعلی یا بے نامی اکاؤنٹس اور ان میں موجود رقوم کا سراغ بھی لگایا جا سکے گا۔
کیا اس عمل سے ٹیکس دینے والوں میں اضافہ ہوگا؟
ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ ہدف اگر ٹیکس نیٹ میں توسیع کا ہے تو اس عمل سے مفروضے کے تحت ڈھائی کروڑ لوگوں میں سے 50 لاکھ لوگ بھی اگر خود کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹرڈ کرا لیتے ہیں تو یقیناََ حکومت کے لیے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں یہ اضافہ ایک بڑی کامیابی ہو گا۔
ان کے خیال میں اس سے بڑا فرق پڑ سکتا ہے لیکن ماضی میں اس قانون کا اطلاق کبھی نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے کسی حد تک لوگ اس سے مانوس نہیں ہو پا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے کئی جگہوں سے آنے والی معلومات کو اکھٹا کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاََ حکام کو رقوم کی منتقلی، جائیداد کی تفصیلات، بیرون ملک سفر، کریڈٹ کارڈز سے خریداری اور اسی طرح کی دیگر معلومات تو کئی جگہوں سے مل رہی ہوتی ہے۔ لیکن صرف معلومات اکھٹا کرنے سے ٹیکس نیٹ نہیں بڑھتا۔ بلکہ معلومات کی بنیاد پر قوانین کا اطلاق کرتے ہوئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں آنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔
ان کے مطابق محض ایسی بکھری ہوئی معلومات جو ٹیکس حکام کے پاس آتی ہیں وہ کسی نظام کی عدم موجودگی کے باعث بلیک میلنگ اور پھر کرپشن کے لیے ہی استعمال ہوتی ہیں۔
ان کےخیال میں اس مقصد کے لیے معلومات کو ایک جگہ یکجا کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ایک فعال اور مضبوط نظام کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے خیال میں اس عمل سے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے زیادہ امکانات نہیں ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ہر قسم کی آمدنی کو قابلِ ٹیکس قرار دیا جانا ضروری ہے اور یہ نکتہ اگرچہ ملک کی تینوں ہی بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں تو شامل ہے لیکن اس میں اصل رکاوٹ جاگیردارانہ سوچ کے ساتھ ساتھ اشرافیہ، بیورو کریسی، کاروباری برادری، مذہبی و سیاسی رہنما، پارلیمنٹیرینز اور حتیٰ کہ اہم ریاستی ستون بھی ہیں۔
انہوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ ایک جانب جہاں حکومت دنیا کے دیگر ممالک سے مطالبہ کرتی نظر آتی ہے کہ ہماری لوٹی ہوئی دولت واپس کی جائے، مگر دوسری طرف اپنے ہی ملک میں پیسہ لوٹ کر باہر لے جانے والوں کے لیے عام معافی (ایمنسٹی) کی اسکیمز جاری کی جاتی ہیں۔ تو ایسے مؤقف پر دنیا ہمارا مذاق ہی اڑائے گی اور اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔