پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کی طرف سے جارہ کردہ نئے سوشل میڈیا قواعد پر کہا ہے کہ حکومت یا کوئی بھی قانون تنقید سے بالاتر نہیں ہے۔ جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو تنقید پر توہین عدالت بھی نہیں بنتی۔
سوشل میڈیا سے متعلق حکومتی رُولز کے خلاف پاکستان بار کونسل کی طرف سے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو سماعت کی۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر پی ٹی اے کے وکیل نے بھارت میں آزادیٔ اظہار دبانے سے متعلق مثال دی تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہاں بھارت کا ذکر نہ کریں، اگر بھارت غلط کر رہا ہے تو کیا ہم بھی غلط کرنا شروع کر دیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی اے کے وکیل کو بھارت کی مثال دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ "ہم بڑے کلئیر ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔"
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایسے رُولز بنانے کی تجویز کس نے دی اور کس اتھارٹی نے اُنہیں منظور کیا؟ اگر سوشل میڈیا رُولز سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہو گی تو یہ احتساب کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
پاکستان بار کونسل نے مؤقف اختیار کیا کہ رولز کی کچھ شقوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ آئین سے متصادم ہیں جب کہ پی ٹی اے حکام نے کہا کہ ہم نے پاکستان بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل سب کو تجاویز کے لیے خطوط لکھے تھے۔
عدالت نے پی ٹی اے کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر مطمئن کریں کہ جاری کردہ رولز آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا "جب آپ سقم چھوڑیں گے تو مسائل بھی ہوں گے، پاکستان بار کونسل کے اعتراضات مناسب ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا رولز ایک مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ایک چیز یاد رکھیں پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس کا آئین بھی ہے۔ جمہوریت کے لیے تنقید بڑی ضروری ہے۔ اکیسویں صدی میں تنقید بند کریں گے تو نقصان ہو گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ حکومت یا کوئی بھی قانون تنقید سے بالاتر نہیں۔ پی ٹی اے تنقید کی حوصلہ افزائی کرے کیوں کہ یہ اظہار رائے کا اہم ترین جزو ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے لیکن فیئر ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت نے پی ٹی اے کو سوشل میڈیا رُولز پر پاکستان بار کونسل کے اعتراضات کو مدِ نظر رکھنے اور دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
پی ٹی اے کے نئے رولز کیا ہیِں؟
حکومتِ پاکستان کے 18 نومبر کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب، مذہبی منافرت، پاکستان کے وقار، سلامتی، دفاع، وفاقی و صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیز، سیاست دانوں، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف، نظریاتی اساس اور ثقافتی اقدار کے خلاف مواد بلاک کرنے کے لیے متعلقہ کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے۔
پی ٹی اے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی یا ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کر دیا جائے گا۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے آزادیٔ اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں لگے گی۔
دستاویز کے مطابق رولز کا اطلاق ہونے کے 9 ماہ کے اندر اندر 5 لاکھ سے زائد صارفین رکھنے والے سروس پرووائیڈرز اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے اور پاکستان بالخصوص اسلام آباد میں رجسٹرڈ دفتر قائم کرنا لازم ہو گا۔
ان نئے قواعد کے تحت یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، گوگل پلس، لنکڈ ان سمیت سوشل میڈیا یا کسی بھی ویب سائٹ پر ہتک آمیز، گستاخانہ مواد، نازیبا تصویر شائع کرنے پر پی ٹی اے کو شکایت درج کرائی جا سکے گی۔
ان قواعد کے سیکشن 37 کے سب سیکشن ون کے تحت اسلام کے خلاف مواد، پاکستان پینل کوڈ اور ملکی سلامتی کے خلاف مواد کو ہٹایا جائے گا۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 292,293 ,294 اور 509 کے تحت غیر اخلاقی مواد پر پابندی عائد کی جا سکے گی اور غلط معلومات کی تشہیر کو بھی روکا جائے گا۔
آن لائن مواد کے خلاف کوئی بھی شخص شکایات درج کرا سکے گا۔ اتھارٹی کی جانب سے شکایت کنندہ کی حفاظت کے پیشِ نظر اس کی شناخت کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ درج کی گئی شکایت کو اتھارٹی کی جانب سے 30 دن کے اندر نمٹایا جائے گا۔
قواعد کے مطابق اتھارٹی فیصلہ جاری کرنے سے پہلے سوشل میڈیا کمپنی، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، ویب سائٹ مالک کو مواد ہٹانے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دے گی۔
ایمرجنسی کی صورت میں چھ گھنٹے میں آن لائن مواد کو ہٹانے کا حکم دیا جا سکے گا۔ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، سوشل میڈیا کمپنی، ویب سائٹ مالک کی جانب سے غیر قانونی مواد کو نہ ہٹانے کی صورت میں پی ٹی اے کی جانب سے اُن کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔
شکایت ملنے کی صورت میں پی ٹی اے ماہرین کی رائے حاصل کر سکے گا۔ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، سوشل میڈیا کمپنی، ویب سائٹ مالک کی جانب سے معلومات تک رسائی کے حوالے سے گائیڈ لائن شائع کی جائے گی۔
پاکستان کے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق کہتے ہیں کہ وہ ایسی کسی بھی پابندی کے خلاف ہیں جس سے ترقی کا عمل رکتا ہو۔
وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نئے سوشل میڈیا قواعد پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی گئی ہے تاہم اگر بین الاقوامی کمپنیوں کو اعتراضات ہیں یا وہ کوئی ترمیم چاہتی ہیں تو اس پر بات کی جاسکتی ہے۔
کمپنیوں کے اعتراضات
سوشل میڈیا سے متعلق نئے قواعد کے نفاذ پر سوشل میڈیا کمپنیوں کی ایشیا میں نمائںدہ تنظیم ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تنظیم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان میں نئے قواعد کی موجودگی میں کام جاری رکھنا مشکل ہوگا۔
اے آئی سی انٹرنیٹ کی بڑی کمپنیوں فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈ ان سمیت دیگر کئی کمپنیوں پر مشتمل ہے اور یہ تنظیم ایشیا میں انٹرنیٹ پالیسیوں پر گہری نظر رکھتی ہے۔
اے آئی سی نے خبردار کیا ہے کہ سخت ڈیٹا لوکلائزیشن سے انٹرنیٹ کے صارف کو مفت اور عام انٹرنیٹ تک رسائی کو نقصان پہنچے گا اور پوری دنیا کے لیے پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کا راستہ بند ہونے کا بھی خدشہ ہے۔