یورپ میں من گھڑت خبروں (فیک نیوز) پر تحقیق کرنے والے ادارے 'ای یو ڈس انفو لیب' نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت گزشتہ 15 برسوں سے جعلی خبروں پر مبنی ایک منظم مہم چلا رہا ہے، جس کا مقصد خطے میں بھارت کے مفادات کا تحفظ کرنا اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ کو گمراہ کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا ہے۔
جعلی خبروں کی تحقیقات کرنے والے یورپی یونین کے ادارے ای یو ڈس انفو لیب نے 'انڈین کرانیکل' کے نام سے جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جعلی خبریں پھیلانے کی خاطر میڈیا کے 750 اداروں، 10 غیر فعال اداروں اور انسانی حقوق کے ایک ایسے پروفیسر کے نام کو استعمال کیا گیا جو 2006 میں انتقال کر گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق 2005 سے یہ مہم بھارت کے سرواستو گروپ کی قیادت میں چل رہی تھی اور بھارت کی نیوز ایجنسی ایشین نیوز نیٹ ورک کے ذریعے اسے وسعت ملی اور اس طرح جعلی اداروں پر شائع ہونے والی خبروں کو اے این ائی کے پلیٹ فارم سے شائع کیا تاکہ اسے اصل خبر سمجھا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کے اس آپریشن کا مقصد خطے میں بھارتی مفادات کا تحفظ اور دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کو دنیا بھر میں نیچے دکھانا تھا۔ اس مہم کے ذریعے یورپی پارلیمنٹ کے سابق صدر کو ایک جعلی این جی او کا سربراہ بنا کر پیش کیا گیا۔ این جی او کی مدد سے ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان پر الزامات لگائے جاتے رہے۔
یورپی یونین کی اس رپورٹ پر تاحال بھارتی ردعمل سامنے نہیں آیا
بھارت کی جانب سے اس معاملہ پر اب تک کوئی موقف سامنے یا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ جب کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس رپورٹ پر بھارت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ریاست سائیبر اسپیس، انٹرنیٹ اور میڈیا کو ایک ملک کے خلاف دشمنی کے فروغ میں استعمال کر رہی ہے۔
یورپی یونین ڈس انفو لیب کی رپورٹ کیا ہے؟
یورپین یونین ڈس انفو لیب کی تحقیق کے مطابق انڈین کرانیکل کے نام سے جاری ہونے والی تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ 15 سالہ طویل آپریشن سال 2005 سے اب تک جاری ہے، جس میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کی ایکریڈیٹڈ 10 این جی اوز بھی شامل ہیں۔ اس آپریشن میں 750 فیک میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے 119 ممالک میں غلط خبریں پھیلائی گئیں۔ اس آپریشن میں 550 ویب سائٹس کے ڈومین بھی رجسٹر کروا کر نیوز ویب سائٹس بنا کر غلط معلومات پھیلائی گئیں، جن کا مقصد ایشیا میں بھارت کے مقابلے میں دیگر ممالک بالخصوص پاکستان اور چین کو نیچا دکھانا تھا۔
طویل المعیاد مقاصد میں بھارت کے اندر پرو انڈین سوچ اور اینٹی پاکستان جذبات کو ابھارنا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت کے متعلق سوچ کو بہتر بنانا اور دیگر ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہوئے یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے اپنے لیے فوائد اکٹھے کرنا تھا۔
ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق اس مقصد کے لیے اس آپریشن میں اقلیتوں، انسانی حقوق کی این جی اوز اور تھنک ٹینکس کو استعمال کیا گیا۔ اس کام کے لیے یورپی پارلیمنٹ کے ممبران کو استعمال کرتے ہوئے یورپی اداروں اور اقلیتی گروپوں کو بھارت کے حق اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ جنیوا اور برسلز میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کونسل کی موجودگی کے پیش نظر وہاں مظاہروں کا اہمتمام کیا گیا۔
اس آپریشن میں برسلز اور جنیوا میں اے این آئی اور لوکل میڈیا کے ذریعے 97 ممالک میں بھارت سے متصادم ممالک کے خلاف جعلی معلومات پھیلائی گئیں اور بالخصوص پاکستان کے خلاف کے پراپیگنڈہ کیا گیا۔
ای یو ڈس انفو لیب کا کہنا ہے کہ یہ کیس دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال ہونے والی تحقیقات کے بعد ہم نے کچھ ویب سائٹس اور ای میلز کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران ایک این این جی او کمشن ٹو سٹڈی دی آرگنائزیشن آف پیس کا مکمل جائزہ لیا گیا، جس کے بعد معلوم ہوا کہ اقوام متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل سے ایکریڈیٹڈ یہ این جی او 1970 سے غیر فعال تھی، لیکن سال 2005 میں یہ دوبارہ منظر عام پر آئی۔ اس کی شناخت کو انہی افراد نے ہائی جیک کیا جن کے نام پہلی تحقیقات میں سامنے آئے تھے۔
معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس تنظیم کے سابق چیئرمین لوئس بی سون جو 2006 میں انتقال کر گئے تھے، اس تنظیم کے ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 2007 میں ہونے والی اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس میں شرکت کے ساتھ ساتھ 2011 میں فرینڈز آف گلگت بلتستان کے نام سے واشنگٹن میں ہونے والی تقریب میں بھی شرکت کی۔
ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق پراپیگینڈہ کے لیے 750 سے زائد نیوز ویب سائٹس بھی بنائی گئیں جن میں بہت سے کالم یورپی قانون سازوں اور صحافیوں کے ناموں سے غلط طور پر منسوب کیے جاتے ہیں۔ ایسے صحافی جو بظاہر موجود نہیں ہیں ان کا نام استعمال کیا جاتا ہے اور پاکستان مخالف مواد کو دوسری ویب سائٹسں سے لے کر اسے بھارت میں دوبارہ شائع کیا جاتا ہے۔
ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی ایسے مواد کی اپنے ملک میں تشہیر کرتی ہے، جسے بزنس ورلڈ میگزین اور دیگر تشہیری ادارے دوبارہ شائع کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے پاکستان مخالف بیانئے کو بھارت اور یورپی یونین میں فروغ دیا جاتا ہے۔ ان کا اہم ہدف برسلز نہیں، بلکہ بھارتی تشہیری ادارے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر مرکزی دھارے میں شامل بھارتی اشاعتی اداروں کیلئے معلومات کے ذریعے کا کام کرتی ہے۔
ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق ای یو کرانیکل، ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی فورم، احباب گلگت بلتستان تنظیم اور (WESTT) کے ناموں سے کام کرنے والے سماجی اداروں کو منظم کرتا ہے، جو یورپی پارلیمنٹ میں بھارتی اثر و رسوخ کو بڑھاوا دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کا مقصد یورپی پارلیمنٹ میں کشمیر پر بھارتی موقف کو آگے بڑھانا ہے۔
ای یو ڈس انفو لیب کا کہنا ہے کہ سری واستو گروپ کے ذریعے برسلز میں موجود یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کو کشمیر، بنگلہ دیش اور مالدیپ کے دورے کروائے گئے۔ ان میں سے کچھ دورے متنازعہ بھی رہے، جن میں سے بعض دوروں کو یورپی یونین کے پارلیمنٹرین کا آفیشل دورہ ظاہر کیا گیا۔ جب کہ وہ پارلیمنٹ کی طرف سے یہ دورہ نہیں کر رہے تھے۔
انڈین کرانیکل کے تمام کردار ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کرداروں نے ساؤتھ ایشیا پیس فورم، بلوچ فورم اور فرینڈز آف گلگت بلتستان کے نام سے یورپی پارلیمنٹ میں تین گروپ بنا رکھے تھے۔ یہ گروپس یورپی پارلیمنٹ میں نیوز کانفرنسز اور باہر مظاہروں کا اہتمام کرتے رہے۔
ای یو ڈس انفو لیب نے ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی کیا کہ مختلف این جی اوز جو کسی اور مقصد کے لیے بنائی گئی تنظیموں کو مخالفین کے خلاف پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا گیا، جن میں سے ایک این جی او کینرز انٹرنیشنل پرماننٹ کمیٹی ہے، جو پیک فوڈ سے متعلق تھی۔ لیکن یہ این جی او جنیوا سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو اقوام متحدہ میں پاکستان سے متعلق بات کرنے کے لیے بھیجا کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق کئی پروگرام بھی اس تنظیم کے زیرانتظام ہوئے۔
اس سارے منصوبے میں بھارتی سرکاری نیوز ایجنسی، ایشین نیوز ایجنسی (اے این آئی) کے کردار کے حوالے سے ڈس انفو لیب کا کہنا ہے کہ ای یو کرانیکل میں شائع ہونے والے آرٹیکلز کو اے این آئی کے ذریعے بھارتی میڈیا میں شائع کیا جاتا تھا۔ یورپ میں شائع ہونے والی ان خبروں اور مضامین کو بھارت کے تمام بڑے میڈیا نیٹ ورکس تک پہنچایا جاتا تھا اور پانچ سو سے زائد فیک لوکل میڈیا اور 95 ممالک کی جعلی معلومات کو منفی انداز میں پاکستان اور چین کے خلاف بھارتی میڈیا پر منفی انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔
ای یو ڈس انفو لیب نے بتایا کہ ای پی ٹوڈے اور ای یو کرانیکل نے پانچ سو سے زائد ڈومین مختلف این جی اوز، تھنک ٹینکس، پورپی پارلیمنٹ کے مختلف گروپس، مذہبی گروپس، پبلشنگ کمپنیز اور عوامی شخصیات کے نام سے رجسٹر کروائے۔ انڈین کرانیکل نے برسلز اور جنیوا میں کئی مظاہرے کروائے۔ جنیوا میں فری بلوچستان کے بینرز لگوائے گئے۔
ای یو ڈس انفو لیب نے اس بارے میں سفارشات دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس 15سالہ آپریشن سے یورپی ممالک کو الارم ہونا چاہیے۔ فیصلہ سازوں کو اس بارے میں پالیسی فریم ورک تشکیل دینا چاہیے۔ اتنے طویل آپریشن کے باعث خدشہ ہے کہ مستقبل میں بھی مزید ایسے آپریشن کیے جا سکتے ہیں۔
اس میں ملوث کرداروں کو اس بات سے روکنا ہو گا کہ وہ سرچ انجنز میں غلط معلومات کو سینکڑوں دفعہ نہ پھیلا پائیں۔
ای یو ڈس انفو لیب نے اپی رپورٹ کی سمری کے آخر میں کہا ہے کہ ہماری تحقیقات سے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ بھارت کس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کررہا ہے۔