پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے حکومتی اتحاد کے امیدوار صادق سنجرانی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کے درمیان مقابلہ تھا۔
یوسف رضا گیلانی کا جہاں سیاست کا وسیع تجربہ ہے وہیں صادق سنجرانی بھی سینیٹ کے امور پر مہارت رکھتے ہیں اور وہ بطور چیئرمین سینیٹ خدمات انجام دے چکے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کی دوڑ میں شامل دونوں سیاست دانوں کے کریئر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
صادق سنجرانی
صادق سنجرانی 14 اپریل 1978 کو بلوچستان کے معدنیات سے بھرپور ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چاغی میں حاصل کی اور بعدازاں اسلام آباد منتقل ہو گئے۔
صادق سنجرانی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1998 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں نواز شریف کے کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے کیا۔
سن 2008 میں صادق سنجرانی اپنے موجودہ مدِمقابل اور اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بطور چیف کوآرڈینیٹر شکایت سیل کام کرتے رہے۔
مارچ 2018 میں سینیٹ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کے اراکینِ بلوچستان اسمبلی نے جماعت سے بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے نام سے الگ جماعت بنائی بلکہ صوبے میں حکومت بھی قائم کر لی۔
باپ بحیثیت جماعت مقتدر حلقوں سے اپنے تعلقات کا اعلانیہ اظہار کرتی آئی ہے۔ صادق سنجرانی باپ کے بانی اور سرکردہ رہنما ہیں۔
مارچ 2018 کے ہونے والے سینیٹ انتخابات میں صادق سنجرانی باپ کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہوئے۔
طاقتور حلقوں میں پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ پسماندہ اور شورش زدہ صوبے بلوچستان سے تعلق ہونا صادق سنجرانی کی سب سے بڑی خوش قسمتی سمجھی جاتی ہے۔
اسی بنا پر صادق سنجرانی 12 اپریل 2018 کو اس وقت کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت سے چیئرمین سینٹ منتخب ہوئے اور مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق کو شکست دی۔
صادق سنجرانی چیرمین سینیٹ بن گئے تو یکم اگست 2019 کو مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی جو واضح اکثریت رکھنے کے باوجود ناکام رہی۔
حالیہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف نے سینیٹ کی اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود صادق سنجرانی کو دوبارہ چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا ہے اور وہ حکمران اتحاد کے مشترکہ امیدوار ہیں۔
صادق سنجرانی کے بطور چیئرمین سینیٹ تین سالہ دور کو دیکھا جائے تو وہ حکومت اور حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلتے رہے ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے برعکس صادق سنجرانی نے حزبِ اختلاف کی اکثریت والے ایوان میں یہ موقع نہیں دیا کہ اُنہیں جانبدار کہا جائے بلکہ ایک موقع پر انہوں نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کو ایوان سے باہر نکالنے کے احکامات بھی دیے تھے۔
پارلیمانی امور کے صحافی عامر وسیم کہتے ہیں کہ رضا ربانی جیسے تجربہ کار اور قانون و قواعد کو سمجھنے والے چیئرمین سینیٹ کے بعد صادق سنجرانی کا اس منصب پر آنا ایک بڑا امتحان تھا اور اس امتحان میں انہوں نے مایوس نہیں کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس دور میں حکومت کی ترجیح نہ ہونے کے باعث زیادہ قانون سازی نہیں ہوسکی تاہم صادق سنجرانی کی ذاتی کارگردگی اور اپوزیشن و حکومتی سینیٹرز کے ساتھ رویہ اچھا رہا۔
انہوں نے کہا کہ صادق سنجرانی کے وفاقی وزیر کو ایوان سے باہر نکالنے کے اقدام کو وفاقی وزرا نے ناپسند کیا تھا۔
عامر وسیم کہتے ہیں کہ ہیں صادق سنجرانی نے اپنے تین سالہ دور میں جاری روایتی کاموں کے علاوہ ایسا کوئی نیا کام نہیں کیا جس کی بنیاد پر انہیں ملکی پارلیمانی تاریخ میں یاد رکھا جاسکے۔
صادق سنجرانی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں اپنے چیمبر کے سامنے راہداری کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا تھا جسے پارلیمنٹ اسٹاف، صحافیوں اور مہمانوں کی جانب سے ناپسند کیا گیا۔
صادق سنجرانی نے رضا ربانی کی جانب سے جمہوری ادوار کی جدوجہد کو نمایاں کرنے کے لیے قائم 'گلی دستور' اور 'پارلیمنٹ میوزیم' کو بھی حالیہ عرصے میں بند کیے رکھا۔
مخدوم یوسف رضا گیلانی
یوسف رضا گیلانی 1952 میں ملتان میں ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو سیاست میں اپنا نام منوائے ہوئے تھا۔
ان کے دادا سید غلام مصطفی رضا شاہ گیلانی تحریک پاکستان کے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
ملتان کی درگاہ حضرت موسٰی پاک کا گدی نشین ہونے کی بنا پر یوسف رضا گیلانی مریدین کا وسیع حلقہ بھی رکھتے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی نے 1976 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا جس کے بعد 1978 میں مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا رکن بننے سے عملی سیاست کا آغاز کیا اور 1982 وفاقی کونسل کے رکن اور 1983 میں ضلع کونسل ملتان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
سن 1985 میں فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اور بعد ازاں وزیرِ ریلوے رہے۔
یوسف رضا گیلانی نے 1988 میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد انہوں نے اپنے مدمقابل نواز شریف کو شکست دی اور بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں سیاحت اور ہاؤسنگ و تعمیرات کے وزیر بنے۔
سن 1990 کے انتخاب میں تیسری مرتبہ رکن اسمبلی بنے اور 1993 کے انتخابات چوتھی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہونے پر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
ماضی کے برعکس یوسف رضا گیلانی فروری 1997 میں ہونے والے انتخابات میں ناکام رہے۔
یوسف رضا گیلانی نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں قید بھی کاٹی۔ 2004 میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 300 ملازمین غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے الزام میں انہیں 10 سال قید بامشقت کی سزا ہوئی جو کہ 2006 میں عدالتی حکم پر رہائی میں تبدیل ہوئی۔
سن 2008 کے عام انتخابات میں پانچویں مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد پیپلز پارٹی نے انہیں وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا اور 24 مارچ کو قومی اسمبلی نے انہیں وزیر اعظم منتخب کیا۔
یوسف رضا گیلانی نے مقتدر حلقوں کی جمہوری حکومت میں مداخلت کو دیکھتے ہوئے ریاست کے اندر ریاست نہیں چل سکتی کا بیان دیا جسے سیاسی قوتیں آج بھی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو محدود کرنے کی عملی کوشش کے طور پر دیکھتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو اس وقت کے صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے مقدمات کھولنے کے لیے سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھنے کا کہا تو یوسف رضا گیلانی کے انکار پر انہیں عدالت نے توہینِ عدالت پر سزا سناتے ہوئے نااہل قرار دیا جس کے بعد انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔
سن 2013 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ان کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو ملتان سے اغوا کرلیا گیا تھا جو تین برس بعد افغانستان میں ایک فوجی کارروائی میں بازیاب ہوئے۔
بیٹے کے اغوا اور عدالتی نااہلی نے یوسف رضا گیلانی کی سیاست کو خاصا متاثر کیا۔
نااہلی کی مدت ختم ہونے پر انہوں نے 2018 کے الیکشن میں ملتان سے حصہ لیا تاہم تحریک انصاف کے محمد ابراہیم خان کے مقابلے میں انہیں شکست ہوئی۔
تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدوار اور وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو شکست دینے کے بعد یوسف رضا گیلانی پہلی بار ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہوئے اور حزبِ اختلاف نے مشترکہ طور پر انہیں چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا۔