فلسطین کی مزاحمتی تنظیم 'حماس' اور اسرائیل نے لڑائی بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے 11 روز تک جاری رہنے والی جنگ میں فتح کے دعوے کیے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جمعے کی رات دو بجے سے جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہوا جس کے بعد ہزاروں لوگ غزہ کی سڑکوں پر نکل آئے۔
اس موقع پر نوجوانوں نے فلسطین اور حماس کے جھنڈے لہرائے، مٹھائیاں تقسیم کیں، گاڑیوں کے ہارن بجائے اور آتش بازی کی۔ اسی طرح کے جشن مشرقی یروشلم شہر اور مغربی کنارے میں بھی کیے گئے۔
دوسری طرف اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا جمعے کو ٹی وی خطاب میں کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج نے حماس کی اسرائیل پر میزائل داغنے کی صلاحیت کو تباہ کر دیا ہے۔ 200 سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا اور حماس کے بچھائے گئے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا ہے۔
تاہم حماس اور اسلامک جہاد کی طرف سے 20 جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
نیتن یاہو کا خطاب میں مزید کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ حماس اب مزید چھپ نہیں سکتی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ حماس اگر مزید حملے کرتی ہے تو اسرائیل کی طرف سے ایک نئے درجے کا جواب دیا جائے گا۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے فتح کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک معاشی اور عسکری طور پر مضبوط دشمن کے حملوں کا مقابلہ کیا۔
اسماعیل ہانیہ نے غزہ میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں تباہ ہونے والی عمارتوں کی تعمیر نو کا عزم بھی کیا۔
غزہ میں 30 اسپتال تباہ
عالمی ادارہٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ غزہ میں 30 اسپتال تباہ ہوئے۔
ڈبلیو ایچ او کی ترجمان مارگریٹ ہیرس کے مطابق اس جنگ میں 243 فلسطینی ہلاک جب کہ آٹھ ہزار 538 زخمی ہوئے۔
اقوامِ متحدہ کی طرف سے غزہ میں ایمر جنسی انسانی ضروریات کے لیے ایک کروڑ 86 لاکھ ڈالرز مختص کر دیے گئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں 72 ہزار سے زائد فلسطینی بے گھر ہوئے۔
’آگے بڑھنے کا حقیقی موقع موجود ہے‘
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ انہیں اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے جمعرات کو مطلع کیا تھا کہ اسرائیل، حماس کے ساتھ باہمی اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے راضی ہے۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس آگے بڑھنے کا حقیقی موقع موجود ہے اور وہ اس کے لیے پر عزم ہیں۔
علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں خطے کا دورہ کریں گے اور اسرائیلی، فلسطینی اور خطے کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان دس مئی سے شروع ہونے والی جھڑپوں میں حماس نے اسرائیلی شہروں پر راکٹ داغے۔ جب کہ اسرائیل کی طرف سے بھی حماس کے ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی حملے کیے گئے۔
کشیدگی کا آغاز کب ہوا؟
یروشلم کے علاقے 'شیخ جراح' سے فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی کے خلاف فلسطینی سراپا احتجاج تھے۔
آٹھ فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کر کے یہودی آبادکاروں کو یہاں لانے پر ہونے والے احتجاج کے باعث اس علاقے میں کشیدگی پائی جاتی تھی۔
اس کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب یروشلم میں موجود الاقصیٰ مسجد کے صحن میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔
اس موقع پر اسرائیل کی فوج نے مسجد کے صحن میں جمع ہونے والے فلسطینیوں پر آنسو گیس، اسٹن گرنیڈ اور ربڑ کی گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔
حماس نے اسرائیل کو مسجد اقصیٰ سے سیکیورٹی فورسز کو پیچھے نہ ہٹانے کی صورت میں راکٹ حملوں کی دھمکی دی جس پر باقاعدہ طور پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔
حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں فضائی کارروائی کی اور دوطرفہ جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔