پاکستان اور امریکی حکام کے مابین حالیہ دنوں میں رابطوں اور ملاقاتوں میں تیزی آئی ہے اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے تناظر میں آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید وسعت کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
بعض ماہرین کے مطابق، افغان امن عمل اور طالبان پر پاکستان کے نام نہاد اثرورسوخ کے پیش نظر، امریکہ اب پاکستان کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
امریکی حکام یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد کسی بھی کارروائی کے لیے پاکستان، امریکہ کو زمینی اور فضائی رسائی دے گا۔
امریکہ کو فوجی اڈے دینے کی بحث اس وقت شروع ہوئی تھی جب امریکہ کے معاون وزیرِ دفاع برائے انڈو پیسفک ڈیوڈ ہیلوے نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ افغانستان تک رسائی کے لیے، پاکستان امریکہ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گا۔
البتہ، پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح کر چکے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی فوجی اڈے پاکستان منتقل نہیں ہو رہے۔ تاہم، وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے، پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
عمران خان کا آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کا اہم دورہ
موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پیر کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ بھی کیا، جہاں ہونے والے اہم اجلاس میں پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور کابینہ میں شامل اہم وزرا نے شرکت کی۔
اطلاعات کے مطابق، اس اہم اجلاس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی سمیت، پاک امریکہ تعلقات پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان پیر کو ہونے والے ٹیلی فونک رابطے کو بھی اہم پیش رفت قرار دیا تھا۔
امریکی حکام کے پاکستانی حکام سے حالیہ رابطے
پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ لائیڈ آسٹن اور پاکستانی آرمی چیف کی بات چیت بہت مفید رہی۔
اُنہوں نے کہا کہ وزیرِ دفاع نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
امریکی حکام اس ضمن میں اتوار کو جنیوا میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کی ملاقات کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں نے دو طرفہ تعلقات، خطے کی صورتِ حال اور باہمی تعاون کو فروغ دینے سمیت اُمور پر تبادلۂ خیال کیا۔
اس بارے میں تجزیہ کار ہمابقائی کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کی تفصیل اب تک سامنے نہیں آئی، لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے دونوں ممالک کے لیے بہتر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اگر تشدد میں اضافہ ہوا تو امریکہ اس میں مداخلت کرے گا۔ ایسے میں بیسز کی موجودگی ضروری ہے، لیکن پاکستان اس حوالے سے مکمل طور پر انکار کر چکا ہے۔
اُن کے بقول، امریکہ یہ بیسز پاکستان کے علاوہ تاجکستان میں بھی قائم کر سکتا ہے۔ لہذا، پاکستان صرف ایک آپشن ہے لیکن حتمی طور پر ضروری نہیں کہ امریکہ خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے پاکستان میں بیسز قائم کرے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن بھی حالیہ دنوں میں اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے دو مرتبہ رابطہ کر چکے ہیں۔
معید یوسف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ 'جیک سلیوان سے مل کر خوشی ہوئی، پاکستان اور امریکی وفود نے باہمی دلچسپی کے دوطرفہ، علاقائی اور عالمی امور پر مثبت تبادلۂ خیال کیا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ فریقین نے دوطرفہ تعلقات میں تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے دوران تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر جہاں امریکی حکام تشویش کا اظہار کر رہے ہیں وہیں تجزیہ کاروں کے مطابق افغان امن عمل کی کامیابی اور تشدد کے خاتمے کے لیے امریکہ کا پاکستان پر انحصار بڑھ رہا ہے۔
امریکہ کا یہ اصرار رہا ہے کہ پاکستان، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری بین الافغان مذاکرات میں بھی تعاون کرے بلکہ ضرورت پڑنے پر افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بھی امریکہ کے ساتھ تعاون کرے۔
بعض ماہرین کے مطابق، وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) میں اب اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ گزشتہ 10 برسوں سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پائے جانے والے تناؤ کو کم کیا جائے۔
بداعتمادی کی تاریخ
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بداعتمادی رہی ہے۔ تاہم، دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری اس وقت پیدا ہوئی جب مئی 2011 میں اُسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں کارروائی سے قبل امریکہ نے مبینہ طور پر پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی۔
اس موقع پر پاکستان نے امریکہ کو دوبارہ ایسی یکطرفہ کارروائی سے باز رہنے کی تنبیہ کی۔
پیر کو پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی ایک بیان میں اُن قیاس آرائیوں کو مسترد کیا کہ پاکستان، افغانستان میں فضائی کارروائی کے لیے امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرے گا۔
البتہ، وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم، اگر اُنہیں ہماری مدد کی ضرورت پڑی تو ہم اس ضمن میں مثبت کردار ادا کریں گے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ "افغانستان ایک خود مختار اور آزاد ملک ہے۔ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کریں گے۔"
البتہ، امریکی حکام پراُمید ہیں کہ پاکستان، افغانستان کے معاملے میں اپنے مفادات سے ہٹ کر کردار ادا کرنے پر رضا مند ہو جائے گا۔
پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بحالی کا آپشن
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اگر پاکستان سے اپنی باتیں منوانا چاہتا ہے تو اس کے لیے ٹرمپ دور میں معطل کی گئی 30 کروڑ ڈالرز کی عسکری امداد بحال کرنا ہو گی۔
البتہ، بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی سوچ بدلنے کے لیے یہ اقدام ناکافی ہو گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس حوالے سے فی الحال کوئی تجویز زیرِ غور نہیں۔ تاہم، اگر اس پر غور کیا جائے تو بھی پاکستان کی سوچ بدلنے کے لیے یہ رقم ناکافی ہو گی۔
پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ایک سینئر پاکستانی اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔
اُن کے بقول، پاکستان نے یہ امداد بحال کرنے کے لیے امریکہ سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ تاہم، اگر امریکہ نے یہ فیصلہ کیا تو پاکستان انکار نہیں کرے گا۔
پاکستان میں امریکہ کے زیرِ استعمال رہنے والے فوجی اڈے
پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون 70 برس پر محیط ہے۔ اس دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔
پاکستان نے سرد جنگ کے زمانے میں 1960 میں پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کا فضائی اڈہ مبینہ طور پر امریکہ کو استعمال کے لیے دیا تھا۔
نائن الیون کے بعد پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تعاون کے لیے مختلف بیسز امریکی فوج کے زیرِ استعمال رہے جس میں بلوچستان میں قائم شمسی ایئر بیس سب سے زیادہ استعمال ہوتا رہا۔
اس بیس سے افغانستان میں مختلف حملوں کے لیے امریکی جنگی طیارے اُڑان بھرتے رہے۔ اس کے علاوہ جیکب آباد کا شہباز ایئر بیس بھی امریکی فوج کے استعمال میں تھا۔
بعض اطلاعات کے مطابق، راولپنڈی کی چکلالہ ایئر بیس پر بھی پاکستان فوج کا انتظامی امور کے حوالے سے امریکی حکام کے ساتھ تعاون جاری رہا۔
سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد امریکہ سے شمسی ائیر بیس خالی کرایا گیا تھا۔ پاکستان فوج کی جانب سے اس وقت جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ اب کسی بھی ایئر بیس پر امریکہ کی کوئی موجودگی نہیں ہے۔
خیال رہے کہ 26 نومبر 2011 کو پاک، افغان سرحد کے قریب سلالہ کے مقام پر پاکستانی اور نیٹو افواج کے درمیان مبینہ جھڑپ میں 28 پاکستانی سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستانی فوج نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ اور نیٹو افواج نے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ کر کے پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کیا۔
پاکستان نے احتجاجاً نیٹو سپلائی بھی کئی ماہ تک معطل کر دی تھی۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے کہا کہ شمسی ایئر بیس، جیکب آباد کا شہباز ایئر بیس اور بلوچستان میں ایک ایئر اسٹرپ امریکہ کے زیرِ استعمال رہی۔
اُن کے بقول، امریکہ کو اسپیشل ایئر کوریڈور بھی دیا گیا تھا جہاں سے ہماری اپنی فضائیہ کی پروازیں بھی آپریٹ نہیں ہو سکتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد نان اسٹیٹ ایکٹرز اور افغانستان میں موجود طالبان پاکستان میں گھس سکتے ہیں جس سے پاکستان کی سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ ایسے میں پاکستان کو سیکیورٹی کے لیے امریکہ کی مدد درکار ہو گی۔
سید نذیر کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے لیے مشکل صورتِ حال ہے، کیوں کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے خطرات سے بھی ڈرایا جا رہا ہے جب کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری پروگرام میں بھی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے امریکہ تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو فضائی اڈے دینا پاکستان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم، موجودہ معروضی حالات اور خطے کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اب یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ہو گا۔
پاکستان کے علاوہ امریکہ کے لیے آپشنز
افغانستان کے لیے روسی صدر کے مندوب ضمیر کابولوف نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستیں تاجکستان یا ازبکستان، امریکہ کو فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔
روسی نیوز ایجنسی 'اسپوتنک' سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ازبک اور تاجک شراکت داروں نے بتایا ہے کہ امریکہ نے باضابطہ طور پر ان ممالک کو ایسی کوئی درخواست نہیں کی۔
البتہ، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد خطے میں امریکی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور جاری ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے پریس سیکریٹری جان کربی نے کہا کہ خطے میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے سفارتی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ تاہم، ابھی حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔