سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی کے گجر نالے اور اورنگی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے لیز شدہ مکانات بھی مسمار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے 13 کلو میٹر طویل گجر نالے کے اطراف تجاوزات گرانے کا حکم دیا تھا جب کہ لیز شدہ مکانات سے متعلق حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اب لیز شدہ مکانات گرانے کا بھی حکم دے دیا ہے۔
لیز کی زمین پر تعمر شدہ مکانات مسمار کرنے کے حوالے سے درخواست کی سماعت کے دوران کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے تعاون سے نالوں کی صفائی اور تجاوزات ختم کرنے کا کام جاری ہے۔ لیکن درجنوں متاثرین نے اینٹی انکروچمنٹ ٹریبونل اور سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناع حاصل کر رکھا ہے جس کی وجہ سے کئی جگہوں پر کام روکنا پڑا ہے۔
حکومتی وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ لیز ہردیے گئے مکانات گرانے سے متعلق بھی وضاحتی احکامات جاری کرے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ متاثرین کو 15 ہزار کی بجائے 20 ہزار روپے دو سال کے لئے ماہانہ کرایہ اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں ترجیحی بنیادوں پر مکانات فراہم کئے جائیں گے۔
انہوں نے اعلیٰ عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سال کی بارشوں کے پس منظر میں نالوں کی ری الائنمنٹ بھی کی جا رہی ہے۔ یکم جولائی سے ملک میں مون سون کی بارشوں کا سیزن شروع ہو جاتا ہے، لیکن عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے کارروائی روکنا پڑی ہے۔
صوبائی حکومت کا ماضی میں لوگوں کو غیر قانونی لیز جاری کرنے کا اعتراف
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اعتراف کیا کہ مختلف محکموں نے لوگوں کو غیر قانونی لیز دی جس پر چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اس کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ آخر غیر قانونی لیز کیسے دے دی گئی اور اس دوران حکومت کیا کر رہی تھی؟
عدالت کی جانب سے گجر نالے کے ڈیزائن سے متعلق سوال پر ایڈووکیٹ جنرل نے آگاہ کیا کہ نئے ڈیزائن کے مطابق پانی کے نکاس کا مناسب راستہ رکھا گیا ہے۔
ادھر گجر نالے کے اطراف ہونے والے آپریشن کے متاثرین کے وکیل فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ سندھ کچی آبادی، کے ایم سی اور دیگر اداروں نے یہاں رہنے والوں کو گزشتہ تین دہائیوں میں لیز فراہم کی۔
متاثرین کے وکیل کا کہنا تھا کہ گجر نالے سے تجاوزات کے خاتمے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن اب حکومتی اداروں ہی کی جانب سے فراہم کی گئی لیز والے مکانات کو بھی منہدم کیا جا رہا ہے۔ جب کہ نالے کے دونوں اطراف میں 30 فٹ کا روڈ بھی تعمیر کی جا رہی ہے۔ یہاں ایک ایک مکان میں چار چار خاندان آباد ہیں اور حکومت انہیں ایک ہی خاندان تصور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا گیا تھا۔
"غلط لیز پر معاوضے کی مزید ادائیگی کے لئے دعویٰ دائر کیا جاسکتا ہے"
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تجاوزات تو ہرحال میں ختم کرنا ہوں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نالے پر کیسے مکانات بنا دیے گئے؟ جسٹس اعجاز الحسن نے اس موقع پر کہا کہ معاوضہ دینے کا معاملہ الگ ہے مگر تجاوزارت کے خلاف کارروائی کیسے روکی جا سکتی ہے۔ اس پر متاثرین کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے پاس تو لیز کی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 90 کی دہائی سے اسی طرح کی جعلسازی ہو رہی ہے۔ یہ ساری دستاویزات جعلی ہیں، اور ان سب کی حقیقت ہمیں معلوم ہے۔ آپ معاوضہ کیلئے لیز دستاویزات کے وزنی ہونے میں دعوی کر سکتے ہیں۔ لیکن غیر قانونی لیز کی بنیاد پر کارروائی نہیں رک سکتی۔
متاثرین کے وکیل نے مزید موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے نالوں سے تجاوزات ہٹانے کے ساتھ متاثرین کی بحالی کا بھی حکم دیا تھا، مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد آپریشن روکنے سے متعلق متاثرین کی درخواست مسترد کرتے انتظامیہ کو تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم دیا۔
"کراچی کا نظام کینیڈا سے چلا یا جا رہا ہے، قبضے اب بھی ہورہے ہیں"
چیف جسٹس نے کراچی میں تجاوازات سے متعلق مزید کیسز کی مساعت کے دوران بھی ریمارکس دیے کہ اب بھی کئی مقامات پر قبضے ہو رہے ہیں لیکن کسی حکومتی ادارے کو کوئی فکر نہیں۔ رفاحی پلاٹس پر بڑے بڑے پلازہ تعمیر ہو چکے ہیں۔ یہ مکروہ دھندا اب بھی چل رہا ہے۔ جو پیسے دیتا ہے اس کا کام ہو جاتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی غیر قانونی کیوں نہ ہو۔ ایسے افراد کو جیل بھیجنے سے ہی یہ مسلہ حل ہو گا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی کا سسٹم کینیڈا سے چلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پر کینیڈا سے حکمرانی کی جا رہی ہے۔ یونس میمن نامی شخص سندھ کا اصل حکمران ہے۔ وہی سارا سسٹم چلا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں کس کی حکومت ہے؟
دوران سماعت سپریم کورٹ نے کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ حکام کی بھی سخت سرزنش کی اور کہا کہ شہر بھر میں تمام کنٹونمنٹس کا یہی حال ہے۔ پورے کراچی کو کمرشل کر دیا گیا ہے۔ دہلی کالونی میں چوہدری خلیق الزماں روڈ پر تمام غیر قانونی عمارتیں بن گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دس دس منزلہ غیر قانونی عمارتیں بن گئیں, حتیٰ کہ ریس کورس پر بھی گھر بنا دیے ہیں۔ عدالت نے دوران سماعت الہ دین پارک سے متصل پویلین اینڈ کلب کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پویلین اینڈ کلب اور الہ دین پارک کا شاپنگ سینٹر گرانے کا حکم دے دیا۔ اس مقصد کے لئے انتظامیہ کو پولیس اور رینجرز کی مدد بھی حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
عدالت نے راشد منہاس روڈ پر یو بی ایل کمپلیکس سے متصل زمین بھی خالی کرانے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ پارک کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔