افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ امریکہ جنگ سے متاثرہ ملک میں اس لیے آیا تھا کہ انتہا پسندی کا خاتمہ کر سکے اور استحکام لا سکے مگر وہ 20 سال بعد ان دونوں مقاصد میں ناکام ہونے کے بعد واپس جا رہا ہے۔
سابق صدر نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ انٹرویو میں یہ گفتگو ایسے وقت میں کی ہے جب امریکہ اور نیٹو کے افغانستان سے انخلا میں کچھ ہفتے باقی ہیں۔ حامد کرزئی نے کہا کہ افغانستان میں انتہا پسندی بلندترین سطح پر ہے اور انخلا کرنے والی افواج ملک میں تباہی چھوڑ کر جا رہی ہیں۔
’’ بین الاقوامی برادری یہاں (افغانستان) بیس سال پہلے آئی تھی اور اس کا واضح مقصد انتہا پسندی سےلڑنا اور استحکام لانا تھا۔۔۔ لیکن آج انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔ لہٰذا وہ ناکام ہو گئے ہیں‘‘
حامد کرزئی کے الفاظ میں وہ اپنے پیچھے جو لیگیسی چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ ہے ’’ مکمل شرمندگی اور تباہی‘‘
تاہم حامد کرزئی نے، جن کے 13 سالہ دور اقتدار میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناؤ رہا، کہا کہ وہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا چاہتے تھے۔ ان کے بقول افغان عوام متحد ہیں اور ان کے اندر اس کی بھرپور خواہش موجود ہے اور اب ان کو اپنے مستقبل کی ذمہ داری لینے کی ضرورت ہے۔
ان کے الفاظ میں ’’ ہم ان کی فوجی موجودگی کے بغیر ہی بہتر ہیں۔ میرے خیال میں ہمھیں خود اپنے ملک کی حفاظت کرنا ہے اور اپنی زندگیوں کا خود خیال کرنا ہے۔۔۔۔ ان کی موجودگی نے ہمیں وہی کچھ دیا ہے جو اس وقت ہمارے پاس ہے۔۔۔ ہم اس تکلیف اور شرمندگی کو قائم نہیں رکھنا چاہتے۔ افغانستان کے لیے بہتر ہے کہ وہ چلے جائیں‘‘۔
افغانستان میں سال 2001 میں امریکی قیادت والے حملے میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد حامد کرزئی اقتدار میں آئے تھے۔ امریکہ کے افغانستان میں آنے کا مقصد نیویارک میں نائن الیون کے حملے کے ذمہ دار القاعدہ کے نیٹ ورک کو تباہ کرنا اور اس کے رہنما اسامہ بن لادن کو کیفرکردار تک پہنچانا تھا۔
کرزئی کے دور اقتدار میں خواتین دوبارہ قومی منظر نامے پر ابھر کر سامنے آئیں، لڑکیوں نے اسکول جانا شروع کیا اور متحرک سول سوسائٹی وجود میں آئی، کابل میں بلند عمارات، سڑکوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر ہوئی۔ لیکن ان کا دور ملک میں کرپشن کے پھیلاؤ، منشیات کی تجارت میں اضافے اور آخری دنوں میں واشنگٹن کے ساتھ جھگڑوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان سے باقی ماندہ اڑھائی ہزار سے ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی بھی مکمل طور پر نکال رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ، افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل ہونے کے بعد نکل رہا ہے۔ ان کے بقول القاعدہ کافی حد تک ختم ہو گئی ہے اور بن لادن کیفرکردار تک پہنچ چکا ہے۔ امریکہ کو مزید فوجی تعینات رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم امریکہ کی جانب سے افغانستان میں عشروں سے جاری جنگ کو سیاسی تصفیے کے ساتھ انجام تک پہنچانے کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے والے زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ افغان امن عمل میں پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی ہے۔
ادھر اقوام متحدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کے طالبان اور القاعدہ کے درمیان اب بھی رابطے موجود ہیں۔ اور اس بارے میں کم شواہد موجود ہیں کہ طالبان امریکہ کے ساتھ معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔
سابق صدر حامد کرزئی نے اے پی کے ساتھ انٹرویو میں افغانستان میں امریکہ کی دو دہائیوں سے جاری جنگی حکمتی عملی پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ تاہم انہوں نے امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے کابل میں موجود متحارب قیادت کو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا حصہ بنانے کی کوششوں کی حمایت کی۔
’’ افغانستان بھر میں، عوام کی بھرپور خواہش ہے کہ ملک میں امن آئے‘‘
سابق صدر کے سال 2014 میں اقتدار سے الگ ہونے کے باوجودبھی افغانستان میں ان کا سیاسی اثر و رسوخ ہے اور وہ اکثر ملکی سیاست کے محور کا حصہ ہوتے ہیں۔
سفارت کار، مغربی عہدیدار، جنرل، قبائلی عمائدین اور افغانستان کے سیاست دان باقاعدگی سے دارالحکومت کابل میں حامد کرزئی کی رہائش گاہ پر آتے جاتے رہتے ہیں۔
حامد کرزئی نے انٹرویو کے دوران متحارب فریقوں کے نام پیغام میں کہا کہ کسی بھی فریق کو نہیں لڑنا چاہیے۔ تاہم انہوں نے پاکستان اور امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ لڑائی کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے لوگوں سے کہا کہ وہ دہائیوں سے جاری جنگ کو ختم کر دیں۔
کرزئی کے بقول پاکستان کی فوجی اور سویلین قیادت اگر افغانستان کے ساتھ مہذب تعلقات چاہتی ہے، اور پاکستان اگر افغانستان کے خلاف انتہا پسندی استعمال کرنے کا راستہ ترک کرتا ہے تو یہ تعلقات بہت خوبصورت اور دونوں فریقوں کے لیے بہت مفید ہو سکتے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار فریقوں کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے عوام کا سوچیں۔ لڑائی، ان کے بقول تباہی ہے۔
’’ صرف ایک ہی حل ہے کہ افغانستان کے لوگ متحد ہوں۔۔۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہمیں ایک دوسرے کا قتل بند کرنا چاہیے‘۔