امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلا شروع ہونے کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے نتیجے میں پاکستان افغان مہاجرین کے ممکنہ دباؤ پر قابو پانے کے لیے 'ایرانی ماڈل' سمیت مختلف آپشنز پر غور کر رہا ہے۔
افغانستان میں جہاں ایک جانب امریکی افواج صدر جو بائیڈن کی انخلا کی پالیسی کے تحت تیزی سے وطن واپس لوٹ رہی ہیں وہیں افغان طالبان ملک کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ افغانستان کی اس صورتِ حال پر پاکستان مسلسل اپنی تشویش کا اظہار کرتا آ رہا ہے۔
پاکستان پہلے ہی ملک میں آباد لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنی معیشت پر بوجھ اور مکمل امن کے قیام میں ایک رکاوٹ قرار دیتا ہے اور ان کو بار بار جلد واپس جانے کی ہدایت کرتا رہتا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم نے ابھی تک 30 لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی ہوئی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ مہاجرین باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس چلے جائیں کیوں کہ ہم ایک اور 'انفلکس' یعنی مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد نہیں چاہتے۔
پاکستان کے شہر کراچی میں کیمپ 'جدید' کے نام سے قائم افغان بستی میں افغان مہاجرین کے رہنما سیداللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
ان کے بقول، ’’کراچی میں آباد افغان مہاجرین افغانستان کے مختلف حصوں میں اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں سے رابطے میں ہیں اور یوں لگتا ہے کہ حالات مزید خراب ہونے کی صورت میں وہ پاکستان ہجرت کر سکتے ہیں۔"
پاکستانی حکومت کیا منصوبے بنا رہی ہے؟
افغان مہاجرین کے ممکنہ ریلے کے پیشِ نظر لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے اب تک متعدد اجلاس ہو چکے ہیں جس میں مہاجرین کے مسئلے کو احسن طریقے سے ڈیل کرنے کے لیے متعدد آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں حال ہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کے علاوہ بین الوزارت اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے اجلاسوں میں اس معاملے پر تفصیلاً غور و فکر کیا گیا۔
پاکستان میں وفاقی سطح پر افغان مہاجرین کی دیکھ بھال سے متعلق اُمور کی نگران وزارت برائے ریاستی اور سرحدی امور (سیفران) کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ "حکومتِ پاکستان سمجھتی ہے کہ ملک میں پانچ سے سات لاکھ نئے افغان مہاجرین داخل ہو سکتے ہیں جب کہ مہاجرین پر کام کرنے والے عالمی اداروں کے مطابق یہ تعداد دو سے تین لاکھ ہو سکتی ہے۔"
اہل کار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اجلاسوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ پاک افغان سرحد پر افغان مہاجرین کے داخلے کے لیے صرف تین باضابطہ سرحدی راستے (یا بارڈر کراسنگ پوائنٹس) کھولے جائیں گے جس میں خیبرپختونخوا میں طورخم (خیبر)، غلام خان (شمالی وزیرستان) اور ارندو (چترال) شامل ہے۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ سرحد کا تقریباً 1229 کلو میٹر پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا جب کہ بقیہ حصہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔
کابل میں قائم 'افغانستان انالسٹس نیٹ ورک' نامی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاک افغان سرحد افغانستان کے ایک تہائی صوبوں سے منسلک ہے جب کہ سرحد پر 235 ایسے مقامات ہیں جہاں سے عوام، اسمگلرز اور شدت پسند غیر قانونی طور پر سرحد پار کرتے رہے ہیں۔
ایرانی ماڈل
پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے بھی گزشتہ ہفتے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں پاکستان میں نئے آنے والے افغان مہاجرین کی آباد کاری کے لیے ’ایرانی ماڈل‘ اپنانے کا عندیہ دیا تھا۔
سیفران اہلکار کا کہنا ہے کہ ’’پاکستانی حکومت بڑی سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ وہ افغان مہاجرین کے حوالے سے ایرانی حکومت کی جانب سے اپنائے گئے ماڈل کو اپنائے جس کے تحت مہاجرین کو پاک افغان سرحد پر پاکستانی حدود میں کیمپ بنا کر رکھا جائے اور ان کے پاکستانی شہروں اور قصبوں میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔"
خیال رہے کہ ہیومن رائٹس واچ سمیت متعدد عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ایرانی حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ غیر انسانی سلوک اور تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے۔
مئی 2020 میں ایرانی سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے اپنے سرحدی علاقے میں مبینہ طور پر افغان مہاجرین کو ہلاک کیے جانے کے الزامات کے بعد تہران کی حکومت شدید تنقید کا نشانہ بنی تھی۔
افغانستان کی حدود ہی میں مہاجرین کیمپس
سیفران اہلکار کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ افغانستان کی حدود میں ہی پاک افغان سرحد پر مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کیمپ تعمیر کیے جائیں جن کی امداد پاکستانی حکومت کرے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے گزشتہ ہفتے وائس اف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’اگر افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو پاکستان مہاجرین کو قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کا بندوست بین الاقوامی قوتوں اور اقوامِ متحدہ کو افغانستان کے اندر ہی کرنا ہو گا۔"
ٹی ٹی پی کا خطرہ
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ افغان مہاجرین کے بھیس میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد بھی پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے 10 جولائی کو منعقدہ اجلاس میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مہاجرین کی آڑ میں یا بھیس بدل کر پاکستان آ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے باڑ لگا کر بارڈر کراسنگ پر مؤثر نگرانی شروع کر دی ہے اور ساتھ ہی ساتھ افغان شہریوں کے لیے آن لائن ویزا کا اجرا بھی شروع کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی حکام اور سیکیورٹی کے ماہرین افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان نے جون 2014 میں مختلف مقامی اور بین الاقوامی عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی تھی جس کو آپریشن ‘ضربِ عضب’ کا نام دیا گیا تھا۔
اس آپریشن کے سبب شمالی وزیرستان سے ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے رہنما اپنے خاندانوں سمیت افغانستان کے سرحدی صوبوں میں منتقل ہو گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق حالیہ مہینوں میں کالعدم ٹی ٹی پی اپنے ناراض دھڑوں، لشکرِ جھنگوی اور القاعدہ سے وابستہ چند گروہوں کی شمولیت کے بعد مزید منظم ہوئی ہے۔ دہشت گرد تنظیم نے سابق قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی فورسز اور قبائلی عمائدین پر حملوں کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔
پاکستانی سیاسی جماعتوں کی مخالفت
پاکستان کے چھوٹے صوبوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ افغان مہاجرین کو پاک افغان سرحد پر ہی کیمپوں میں رکھا جائے اورشہروں تک نہ آنے دیا جائے۔
سندھ کے وزیر آب پاشی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما محمد اسماعیل راہو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں خانہ جنگی جیسی صورت حال کے سبب مزید افغان مہاجرین کی نقل مکانی روکنے کے لیے وفاقی حکومت فوری طور پر سرحد کو سیل کرے اور اگر نقل مکانی ناگزیر ہو تو انہیں افغانستان سے ملحقہ علاقوں تک محدود رکھا جائے۔
ان کے بقول،’’وفاقی حکومت افغان مہاجرین کے لیے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں مہاجرین کیمپس قائم کریں اور انہیں سندھ کی جانب نہ بھیجے کیوں کہ سندھ مزید کسی بڑی ہجرت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں ضیا الحق کے دور میں لائے ہوئے افغان مہاجرین ابھی تک واپس نہیں گئے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ( یواین ایچ سی ار) کے ترجمان قیصر آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں موجود افغان شہریوں کو تین کیٹیگریز میں رکھا گیا ہے۔
قیصر آفریدی کے مطابق پہلی کیٹگری میں وہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین شامل ہے ہیں جن کی تعداد صرف 14 لاکھ ہے۔ انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے باقاعدہ نادرا کے رجسٹریشن کارڈز جاری کیے گئے ہیں جسے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز کہتے ہیں۔
ان کے بقول، ’’دوسری کیٹگری کو پاکستان کے ادارے نادرا نے افغان سٹیزن کارڈ جاری کیے ہیں اور ان کی تعداد آٹھ لاکھ 80 ہزار بتائی جاتی ہے۔ ان کی رجسٹریشن 2017 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ تیسری کیٹگری میں ایسے مہاجرین ہیں جن کے پاس 'افغان سٹیزن کارڈ‘ اور 'پروف آف رجسٹریشن‘ موجود نہیں ہیں۔ قیصر آفریدی نے سیفران کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایسے افراد کی تعداد چار سے پانچ لاکھ بتائی ہے۔
قیصر آفریدی کا کہنا ہے کہ یو این ایچ سی آر صرف پی او آر کارڈ ہولڈرز ہی کو افغان مہاجرین تسلیم کرتی ہے اور ان ہی کی کفالت پر مامور ہے۔
ان مہاجرین نے سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت یا بعد میں پسپائی کے بعد صورتِ حال کی وجہ سے نقل مکانی کی تھی اور افغان مہاجرین کی پاکستان کی موجودہ آبادی میں اکثریت وہ ہے جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے عہدے کا حلف لینے کے ایک ماہ بعد کراچی میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ اُن کی حکومت ایسے افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دے گی جو یہیں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ مگر سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی مخالفت کے سبب وفاقی حکومت اس منصوبے پرکام نہیں کرسکی۔
تاہم وزیراعظم نے 2019 میں افغان مہاجرین کی سہولت کے لیے انہیں بینک میں کھاتے کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔