رسائی کے لنکس

امریکی فوجی سفارتی عملے کے بحفاظت انخلا کے لیے کابل پہنچ گئے


افغانستان میں امریکی میرین فوجی ایک ہیلی کاپٹر سے اتر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
افغانستان میں امریکی میرین فوجی ایک ہیلی کاپٹر سے اتر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

افغانستان سے کچھ امریکی سفارت کاروں اور ہزاروں افغان باشندوں کو تیز رفتاری اور حفاظت سے نکالنے کے لئے امریکی فوج کی میرین فورس کی پہلی بٹالین جمعے کے روز کابل پہنچ گئی ہے۔ یہ قدم افغانستان میں طالبان کے تیزی سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے اور کابل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔

امریکہ محکمہ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے بتایا کہ بٹالین کے ارکان اب کابل میں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اختتام ہفتہ امریکہ اپنے مزید فوجی کابل میں بھیج رہا ہے تاکہ مزید امریکیوں اور ان کے افغان ساتھیوں کو جلد از جلد وہاں سے نکالنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔

افغانستان میں امریکہ اپنا فوجی مشن اس مہینے کے آخر تک مکمل کر رہا ہے جب کہ دوسری طرف طالبان تیزی سے صوبوں پر قبضے کرتے جا رہے ہیں۔

یورپی یونین کے مطابق اس وقت ملک کے دو تہائی علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور وہ تیزی سے دارالحکومت کابل کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ جمعے کے روز انہوں نے چار صوبوں کے صدر مقام اپنے قبضے میں لے لیے۔

امریکی وزارت دفاع کے ترجمان جان کربی نے ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ "ان کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کابل کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں"۔

پینٹاگان ساڑھے چار سے پانچ ہزار فوجی خلیج کے ملکوں قطر اور کویت میں اپنے اڈوں پر بھیج رہا ہے جن میں سے ایک ہزار فوجی قطر بھیجے جائیں گے تاکہ ان افغان مترجموں اور دوسرے شعبوں میں امریکہ کی مدد کرنے والوں اور ان کے خاندانوں کی امریکہ منتقلی کے لیے ویزوں کی پراسسنگ میں تیزی لائی جا سکے، جنہیں امریکی افواج کی معاونت کرنے کی بنا پر طالبان سے خطرات لاحق ہیں۔

امریکی ترجمان نے بتایا کہ اس کے علاوہ ساڑھے تین سے چار ہزار تک لڑاکا فوجی کویت بھیجے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہاں ریزرو فورس کے طور پر رہیں گے، تاکہ اگر 3000 امریکی فوجیوں سے زائد فورس کو کابل بھیجنے کی ضرورت پڑے تو انہیں وہاں بھیج دیا جائے گا۔

افغان حکومت اور بائیڈن انتظامیہ کے درمیان عدم اعتماد بڑھ رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:11 0:00

مبصرین کے مطابق قریبی ملکوں میں امریکی فوجی موجودگی میں عارضی اضافہ، افغانستان سے ایک ایسے وقت میں اپنے شہریوں اور امریکی فوج کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں کو نکالنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جب امریکہ کی 20 سالہ فوجی مہم کے باضابطہ خاتمے میں محض تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور طالبان حیران کن برق رفتاری کے ساتھ ملک کے زیادہ تر حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔

صدر بائیڈن نے اپنے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ 31 اگست تک امریکہ اور نیٹو کے اس فوجی مشن کو ختم کر دیا جائے گا جس کا آغاز 7 اکتوبر 2001 میں ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کے مقاصد پورے ہو چکے ہیں۔ کابل میں ایک افغان حکومت قائم ہے اور ایک ایسی افغان فوج تیار کر دی گئی ہے جو مغربی ممالک کے فوجیوں کی واپسی کے بعد طالبان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

جمعے کے روز کابل حکومت اور اس کے اتحادیوں کو سب سے بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب طالبان نے ہلمند صوبے کے صدر مقام پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں امریکی، برطانوی اور نیٹو کے دوسرے اتحادی فوجی دستے 20 سال تک عسکریت پسندوں کے خلاف خون لڑتے رہے ہیں۔ ان لڑائیوں میں سینکڑوں اتحادی فوجی ہلاک ہوئے۔ اکثر اوقات غیرملکی فورسز طالبان کو شکست دینے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہیں لیکن جب وہ واپس گئے تو طالبان کے دوبارہ وہاں لوٹنے کے شواہد مل رہے ہیں۔

طالبان غزنی پر قبضے کے بعد مرکزی شاہراہ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ 13 اگست2021
طالبان غزنی پر قبضے کے بعد مرکزی شاہراہ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ 13 اگست2021

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے شروع میں یہ کہا تھا کہ کابل میں ان کا سفارت خانہ تھوڑے عملے کے ساتھ بدستور کام کرتا رہے گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، جمعرات کے روز کابل کے امریکی سفارت خانے کے زیادہ تر ارکان کو وہاں سے نکال کر امریکہ واپس بھیجنے اور ہزاروں اضافی امریکی فوجیوں کی تعیناتی، طالبان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی کابل حکومت کی اہلیت پر متزلزل ہوتے ہوئے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔

برطانیہ نے بھی افغانستان سے اپنے شہریوں کو بحفاظت نکالنے کے لیے 600 فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے، جب کہ کینیڈا نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے عملے کو کابل سے نکالنے کے لیے خصوصی فوجی دستے بھیج رہا ہے۔

دریں اثنیٰ، اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ فی الوقت افغانستان کے لئے امداد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور اس اہم صورتِ حال میں ایسا کابل میں کیا جا رہا ہے، جہاں ہزاروں لوگ اپنے علاقوں میں طالبان کی پیش قدمی سے بھاگ کر پناہ لے چکے ہیں اور اب کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔

تاہم، عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ہر ایک گھنٹے بعد صورتِ حال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے جمعے کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے عملے کا انخلاء نہیں کیا جا رہا۔ تاہم، عملے میں کمی کر دی گئی ہے اور ایسا ہرات اور قندھار میں بھی کیا گیا ہے جو اب طالبان کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG