رسائی کے لنکس

کابل پر طالبان کا قبضہ: ’افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے‘


بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بھارت کی پہلی ترجیح کابل اور دیگر مقامات سے اپنے شہریوں کو بحفاظت نکالنا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی میں حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی صورت حال انتہائی غیر متوقع ہے جب کہ حکومت حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ کابل میں بھارت کے سفارتی عملے اور دوسرے شہریوں کو بحفاظت وطن واپس لایا جائے گا۔

البتہ حکومت کی جانب سے افغانستان کی صورت حال پر تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

ایئر انڈیا کا ایک طیارہ 129 مسافروں کو لے کر اتوار کی شام نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اترا تھا۔ بھارت نے اپنے شہریوں کو واپس لانے کے سلسلے میں ہنگامی طور پر تیاریاں کی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے سامنے صرف اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنے کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ یہ سوال بھی ہے کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران افغانستان میں اپنے جو اثرات قائم کیے تھے ان کا مستقبل کیا ہو گا؟

بھارت کی سرمایہ کاری

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت نے افغانستان میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران تین ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارت نے کابل میں افغان پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر میں مدد دی جہاں اب طالبان کا قبضہ ہو گیا ہے۔

اس کے علاوہ بھارت نے افغانستان تک اپنی رسائی آسان بنانے کے لیے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاملہ بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو گیا ہے۔

بھارت کو افغانستان کی صورتِ حال پر کیا تحفظات ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

رپورٹس کے مطابق بھارت نے افغانستان میں چھوٹے بڑے 500 منصوبوں پر کام کیا ہے۔ ان میں سے بعض منصوبے مکمل ہو گئے ہیں جب کہ کچھ ابھی تک نا مکمل ہیں۔

بھارت نے افغانستان میں اسکول، اسپتال، صحت کے مراکز، طلبہ کے ہاسٹلز اور پل وغیرہ کی تعمیر میں بھی افغان حکومت کی مدد کی تھی۔ اس کے علاوہ سلمیٰ ڈیم اور زارانج دلارام ہائی وے کی تعمیر میں بھی بھارت نے سرمایہ لگایا ہے لیکن اب ان منصوبوں کا مستقبل یقنی نظر نہیں آتا۔

بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کی رپورٹ کے مطابق جب اس بارے میں حکومت کے ایک اہل کار سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ان منصوبوں پر کام کیا اور ان کے مکمل ہونے کے بعد انہیں افغان عوام کے حوالے کر دیا۔ اب یہ منصوبے ہمارے نہیں ان کے ہیں۔ ان کا مستقبل کیا ہو گا اس کا فیصلہ انہیں کرنا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بھارت کے تین ارب ڈالر کے منصوبے اپنی جگہ لیکن اس کا اصل نقصان وہاں اثر و رسوخ متاثر ہونے سے ہوا ہے اور یہ نقصان زیادہ بڑا ہے۔

بھارت میں مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں اس پر پاکستان کا اثر رہے گا۔

'توقع نہیں تھی کہ اتنا جلدی یہ ہو جائے گا'

سابق سفارت کار پربھو دیال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں جو ہوا ہے وہ انتہائی غیر متوقع تھا۔ بھارت سمیت کسی بھی ملک نے یہ اندازہ نہیں لگایا تھا کہ اتنی جلد کابل کی حکومت طالبان کے ہاتھ میں آ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کا خیال تھا طالبان کو حکومت پر قبضہ کرنے میں کم از کم 90 دن لگیں گے۔ امریکہ کے اسٹرٹیجک تجزیہ کاروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ طالبان 90 دن کے اندر کابل پر قبضہ کر لیں گے۔

پربھو دیال نے کہا کہ لیکن اب جو حالات سامنے آئے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز نے طالبان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا اور ہتھیار ڈال دیے۔

ان کے خیال میں ایسا ممکن ہے کہ طالبان اور افغان سیکورٹی فوسرز میں کوئی مفاہمت ہو گئی ہو۔ انہوں نے سوچا ہو کہ مقابلہ کرنے میں خون خرابہ ہو گا۔ لہٰذا اپنے شہریوں کی جان بچا لی جائے اور اقتدار طالبان کے حوالے کر دیا جائے۔

ان کے مطابق افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری افغان عوام کے لیے ہے۔ اب اس کا مستقبل کیا ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

پربھو دیال کا کہنا ہے کہ اگر کچھ منصوبے نامکمل رہ گئے ہوں گے تو ان کے بارے میں وہاں کی حکومت فیصلہ کرے گی کہ بھارت انہیں مکمل کرے یا نہ کرے۔

کیا آج کے طالبان ماضی کے طالبان سے مختلف ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:36 0:00

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت کے سامنے دو چیلنجز ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہاں سے اپنے شہریوں کو کیسے بحفاظت نکالا جائے اور دوسرا یہ کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ کیسے تعلقات رکھے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اور طالبان کی حکومت کے تعلقات کیسے ہوں گے اس کا انحصار طالبان کی خارجہ پالیسیوں اور فیصلوں پر ہوگا۔ لیکن اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

’افغان عوام نے جو قیمت ادا کی وہ ضائع ہوگئی‘

بین الاقوامی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار رہیس سنگھ کا کہنا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال صرف بھارت کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے چونکا دینے والی ہے۔ بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں امن میں یقین رکھنے والے ہر شخص کو کابل میں پیدا ہونے والی صورت حال سے دھچکا لگا ہے۔

ان کے مطابق کسی نے نہیں سوچا تھا کہ افغانستان میں 15 دنوں میں صورت حال بالکل بدل جائے گی اور صدر اشرف غنی بغیر مزاحمت کے ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

ان کے خیال میں موجودہ صورت حال اور افغانستان پر طالبان کا قبضہ امریکہ اور افغان عوام کی شکست ہے۔ افغان عوام نے 20 برسوں تک جو قیمت ادا کی تھی وہ ضائع ہو گئی ہے۔

کشمیر سے متعلق اندیشے

رہیس سنگھ نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ طالبان کی آمد کے بعد پاکستان بھارت کے خلاف ان کا استعمال کر سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان طالبان کو اپنے کنٹرول والے کشمیر میں سرگرم کر سکتا ہے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔

طالبان کے علاوہ افغانستان میں کون سے عسکریت پسند گروپ ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:48 0:00

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو اتنی جلدی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ لیکن پھر بھی بھارت کو اس سلسلے میں حکمت عملی بنانا ہو گی۔

بین الاقوامی امور کے ماہر رہیس سنگھ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق یہ واضح ہے کہ طالبان ان منصوبوں پر بھارت کو اپنا کنٹرول قائم نہیں کرنے دیں گے۔

طالبان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اب تک جو بیانات سامنے آئے ہیں ان سے نہیں لگتا کہ بھارت طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق طالبان کو پہلے اپنی پالیسیوں اور فیصلوں کا اعلان کرنا چاہیے اور یہ بتانا چاہیے کہ وہ کس قسم کی حکومت چلائیں گے۔ حالاں کہ ان کے رویے اور بیانات سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید ان کی حکومت ماضی کی طرح سخت گیر نہیں ہو گی لیکن پھر بھی ان کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ جب تک طالبان اپنی پالیسیوں کا اعلان نہیں کرتے بھارت کو ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے یا ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔

افغانستان میں پھنسے سکھ شہری

دریں اثنا بھارت کی ریاست پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن (ر) امریندر سنگھ نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں کے ایک گرودوارے میں 200 سکھ پھنسے ہوئے ہیں۔

انھوں نے وزیر حارجہ ایس جے شنکر سے اپیل کی کہ فوری طور پر افغانستان میں پھنسے ہوئے سکھوں کو نکالنے کے انتظامات کیے جائیں۔

انھوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پھنسے ہوئے سکھوں کو نکالنے میں ان کی حکومت پوری مدد کرے گی۔

وزیرِ اعلی پنجاب نے یہ بھی کہا کہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ بھارت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ لہٰذا بھارت کو اپنی تمام سرحدوں کے سلسلے میں چوکنا رہنا چاہیے۔

کیپٹن امریندر سنگھ کے مطابق طالبان کے قبضے کے بعد بھار ت مخالف چین اور پاکستان کا اتحاد اور مضبوط ہو جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG