کابل سے آخری فوجی کے انخلا کے بعد امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ 2001 میں شروع ہونے والی یہ جنگ دو دہائیوں تک جاری رہی۔
اس جنگ میں رواں سال اپریل تک امریکہ کے 2461 فوجی اور 3846 کانٹریکٹر ہلاک ہوئے۔ افغانستان کی فوج اور پولیس کا جانی نقصان 66 ہزار بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح نیٹو اتحاد میں شامل ممالک کے 1144 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔
رواں برس اپریل تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں 47 ہزار 245 افغان شہری اور طالبان سمیت دیگر حریف گروہوں سے تعلق رکھنے والے 51 ہزار 191 افراد ہلاک ہوئے۔
بیس برسوں پر محیط اس جنگ میں 444 امدادی کارکنان اور 72 صحافیوں کی جانیں بھی گئیں۔ اس جنگ میں رواں برس اپریل تک کے اعداد وشمار کے مطابق مجموعی طور پر ایک لاکھ 72 ہزار 403 افراد ہلاک ہوئے۔
پینٹاگان کے مطابق افغانستان میں امریکہ کے فوجی آپریشنز پر 2001 سے اب تک 824 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ ’براؤن یونیورسٹی‘ کی تحقیق کے مطابق افغانستان اور پاکستان میں عسکری آپریشن پر 23 کھرب ڈالر کی لاگت آئی ہے۔
افغانستان سے انخلا کے دوران کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 26 اگست کو ہونے والے دھماکوں میں 13 امریکی فوجی اہل کاروں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے۔
اس جنگ کے آغاز سے اختتام تک پیش آنے والے اہم واقعات کا ایک جائزہ اس رپورٹ میں دیا جارہا ہے۔
11ستمبر 2001
امریکہ میں دہشت گردی کے واقعات میں تین ہزار کے لگ بھگ لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے۔ یہ حملے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے کیے تھے جب کہ اس تنظیم کے سربراہ اسامہ بن لادن کو افغاسنتان میں قائم طالبان کی حکومت نے پناہ دے رکھی تھی۔
12 ستمبر 2001
امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے قوم سے خطاب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔
17 ستمبر 2001
پاکستانی حکومت کے ایک وفد نے قندھار میں طالبان کے سربراہ ملا عمر سے ملاقات کی اور تین دن کے اندر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کی مہلت دی۔
ملا عمر نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
18 ستمبر 2001
صدر جارج بش نے اعلان کیا کہ امریکہ کو اسامہ بن لادن ’زندہ یا مردہ‘ حالت میں مطلوب ہیں۔
20 ستمبر 2001
صدر بش نے افغانستان میں طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔
افغانستان میں مذہبی علما کے ایک جرگے نے ملا عمر سے کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کو افغانستان چھوڑنے کے لیے ’مدعو‘ کریں۔
ملا عمر نے یہ مطالبات تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
سات اکتوبر 2001
اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے طالبان کے انکار کے بعد امریکی اور برطانوی طیاروں نے افغانستان پر فضائی حملوں کا آغاز کردیا۔
ان حملوں میں کابل، قندھار، قندوز، فرح، مزارِ شریف اور جلال آباد میں طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
19 اکتوبر 2001
امریکہ اوراس کی اتحادی افواج نے افغانستان میں زمینی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
نو نومبر 2001
امریکہ کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد نے طالبان کو شکست دے کر مزار شریف پر قبضہ کر لیا۔
13 نومبر 2001
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کسی خاطرخواہ مزاحمت کے بغیر کابل پر قبضہ کر لیا۔
14 نومبر 2001
شمالی اتحاد کی افواج نے غزنی اور مغربی افغانستان کے زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا۔
15 نومبر 2001
جنرل عبد الرشید دوستم کی فورسز نے تالقان پر قبضہ کیا۔ شمالی اتحاد کی فورسز کابل میں داخل ہوئیں اور جلال آباد کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔
22 نومبر 2001
کابل پر اتحادیوں کے قبضے کے بعد قندھار بھی طالبان کے ہاتھ سے نکل گیا۔
25 نومبر 2001
شمالی اتحاد نے طالبان کے زیر انتظام آخری شہر قندوز کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا۔
چھ دسمبر 2001
امریکہ نے اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانے تورا بورا پر زبردست بمباری کی۔
22 دسمبر 2001
حامد کرزئی کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
17 اپریل 2002
صدر بش نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔
یکم مارچ 2003
القاعدہ کے اہم رہنما خالد شیخ محمد کو پاکستان کے شہر راولپنڈی سے گرفتار کر لیا گیا۔
18 جون 2004
امریکہ کے پاکستانی سر زمین پر ہونے والے پہلے ڈرون حملے میں کمانڈر نیک محمد مارا گیا۔
16 ستمبر 2004
حامد کرزئی ہیلی کاپٹر پر داغے گئے میزائل حملے میں بال بال بچے۔
نو اکتوبر 2004
طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے پہلے صدارتی انتخابات میں حامد کرزئی افغانستان کے صدر منتخب ہوئے۔
23 مئی 2005
افغانستان کے نو منتخب صدر حامد کرزئی نے صدر بش کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں امریکی افواج کو افغانستان کی عسکری تنصیبات تک رسائی دی گئی۔
جولائی 2006
افغانستان کے مختلف علاقوں میں پرتشدد واقعات بڑھ گئے اور خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
13 مئی 2007
پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان ڈیورنڈ لائن پر جھڑپوں کا آغاز ہوا۔
17 فروری 2009
امریکہ کے نئے صدر براک اوباما نے افغانستان میں 17ہزار مزید فوجی اہلکار بھیجنے کا اعلان کیا۔
یکم دسمبر 2009
صدر براک اوباما نے مزید تیس ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ ہو گئی۔
دو مئی 2011
پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکی خفیہ کارروائی سے اسامہ بن لادن مارے گئے۔
27 مئی 2014
صدر اوباما نے 2016 کے آخر تک22 ہزار امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کا عندیہ دیا۔
28 دسمبر 2014
امریکہ نے افغانستان میں اپنا مشن جاری رکھنے کے لیے 10 ہزار فوجی رکھنے کا اعلان کیا۔
11 جنوری 2015
داعش نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا۔
29 جولائی 2015
افغان حکومت نے ملا عمر کی 2013 میں ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ ملا منصور اختر طالبان کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔
21 مئی 2016
طالبان کے سربراہ ملا منصور اختر ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے۔
25 مئی 2016
ملا ہیبت اللہ اخونزادہ طالبان کے تیسرے سربراہ مقرر ہوئے۔
13 اپریل 2017
امریکہ نے شمالی افغانستان میں داعش سے متعلقہ غاروں پر اپنا سب سے طاقتور غیرجوہری بم گرایا۔ اس بم کو ’مدر آف آل بمز‘ کہا گیا۔
21 اگست 2017
امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے افغانستان میں موجود فوجیوں کی تعداد 8500 سے بڑھا کر 14000 ہزار کردی۔
28 جولائی 2018
امریکہ اور طالبان نے امن معاہدے کے لیے مذاکرات کا باضابطہ آغاز کیا۔
4 ستمبر 2018
سابق سفارت کار زلمے خلیل زاد کو افغان امن عمل کے لیے امریکہ کا نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا۔
28 جنوری 2019
امریکہ اور طالبان نے امن معاہدے کے لیے مذاکرات کا باضابطہ آغاز کیا۔
29 فروری 2020
امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت مئی 2021 تک تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ہونا طے پایا۔
اس کے علاہ افغان حکومت کو پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی اور طالبان کو ایک ہزار مغوی رہا کرنے کا پابند کیا گیا۔
اس معاہدے میں طالبان سے یہ ضمانت بھی مانگی گئی کہ وہ افغانستات کی سزرمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
جنوری 2021
صدر بائیڈن کی حکومت نے افغان امن معاہدے پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا۔
14 اپریل 2021
صدر بائیڈن نے 11 ستمبر تک افغانستان سے افواج کے انخلا کا اعلان کیا۔
دو جولائی 2021
امریکی فوج نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئر بیس خالی کر دیا۔
چھ اگست 2021
طالبان افغان صوبے نمروز کے دارالحکومت زرنج میں داخل ہوئے۔ یہ افغانستان کا پہلا صوبائی دارالحکومت تھا جس کا کنٹرول طالبان نے حاصل کیا۔
12، 13 اگست 2021
طالبان کی پیش قدمی میں تیزی آئی اور قندھار سمیت مزید کئی مرکزی شہروں پر ان کا قبضہ ہوگیا۔
اس کے علاوہ 12 اگست کو امریکہ نے اپنے سفارتی عملے کے انخلا کے لیے تین ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا۔
15 اگست 2021
طالبان بغیر کسی مزاحمت کے کابل میں داخل ہوئے اور صدارتی محل سمیت اہم تنصیبات پر قبضہ کر لیا۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے ساتھ ہی صدر اشرف غنی افغانستان چھوڑ گئے۔
26 اگست 2021
کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر دھماکے ہوئے جس میں 13 امریکی فوجی اہل کاروں سمیت متعدد شہری ہلاک ہوگئے۔
ان دھماکوں کی ذمے داری داعش خراسان نے قبول کی۔
28 اگست 2021
امریکہ کی فوج نے داعش خراسان کے خلاف افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں انسداد دہشت گردی کی ایک فضائی کارروائی کی جس میں شدت پسند تنظیم کے مبینہ منصوبہ ساز کی ہلاکت کی کی اطلاعات سامنے آئیں۔
31 اگست 2021
کابل ایئرپورٹ سے 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب امریکی فوج کا انخلا مکمل ہوا اور بیس برس تک افغانستان میں جاری امریکہ کی جنگ کا اختتام ہوگیا۔