ترکی میں گزشتہ سال کے اواخر سے صدر طیب ایردوان کی خارجہ پالیسی کے جارحانہ انداز میں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ بدلتے عالمی حالات اور اپنے معاشی چیلنجز کی وجہ سے ترکی نے آئندہ برس کے لیے اپنے اہداف بھی اسی حکمتِ عملی کے تحت ترتیب دیے ہیں۔
ترک حکومت کے حامی سمجھے جانے والے تھنک ٹینک ’سیٹا‘ (فاؤنڈیشن فور پولیٹیکل، اکنامک اینڈ ریسرچ) نے ترکی کے عالمی سیاسیت میں اہداف کے بارے میں ’’ٹرکیز جیوپولیٹیکل لینڈ اسکیپ ان 2022‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
'سیٹا' نے 2022 میں ترکی کے ان اہداف سے متعلق سلامتی اور خارجہ امور کے ماہرین کا ایک سروے کیا تھا۔ رپورٹ میں اس سروے کے نتائج سے متعلق بتایا گیا ہے کہ 2021 میں ترکی کی زیادہ توجہ دفاع پر تھی۔ لیکن 2022 میں ’معاشی سیکیورٹی‘ زیادہ اہم ہو گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکی اپنی سلامتی کو عسکری یا فوجی تناظر کے بجائے معیشت، سماجی اور ماحولیاتی تحفظ کے زاویے سے دیکھ رہا ہے۔
پالیسی میں اس تبدیلی کی وجہ اس رپورٹ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ خطے میں بالخصوص شام اور عراق میں ایسے خطرات کم ہو گئے ہیں جن کے مقابلے کے لیے فوجی مداخلت ضروری تھی۔
سیٹا کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بھی معاشی ترجیحات ہی قومی سلامتی سے متعلق ترکی کی پالیسی کی سمت کا تعین کریں گی۔
ترکی میں حکومت کے حامی حلقے، تھنک ٹینکس اور تجزیہ کار سلامتی اور خارجہ امور سے متعلق ایردوان کی بدلتی ترجیحات کے اسباب میں بدلتے عالمی حالات اور خطے کی صورت حال کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن بین الاقوامی مبصرین کے نزدیک اس پالیسی شفٹ کی بنیادی وجہ ترکی میں جاری معاشی مسائل ہیں۔
عالمی میڈیا کے لیے ترکی کے امور پر لکھنے والی لز ککمین نے خارجہ امور کے بین الاقوامی جریدے ’فارن پالیسی‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ معاشی مسائل نے ترکی کو اپنے پرانے حریفوں سے تعلقات بہتر کرنے کی جانب مائل کیا ہے۔
معاشی مسائل اور ایردوان کے چیلنجز
ترکی میں گزشتہ پیر کو شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 2002 کے بعد پہلی مرتبہ 36 اعشاریہ ایک فی صد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔
اس کے علاوہ ترکی کو 2021 میں اپنی کرنسی ’لیرا‘ کی قدر میں بھی تیزی سے کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر 2021 میں 44 فی صد کم ہوئی۔
ترکی میں پچھلے برس تاریخی طور پر ایک ڈالر کی قیمت 18.4 لیرا پر پہنچ گئی تھی۔ دسمبر 2021 میں ترک حکومت کی اصلاحات کے بعد ایک ڈالر کی قیمت اس وقت کم و بیش 13 لیرا تک آ گئی ہے۔
ترکی کے محکمۂ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح نومبر میں 22.3 فی صد سے بڑھ کر 36 فی صد تک پہنچ گئی۔
اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 2002 کے بعد اب تک سب سے بلند ہے جب ایردوان کی جماعت نے انتخابات میں پہلی بار کامیابی حاصل کی تھی۔
صدر رجب طیب ایردوان کی غیر روایتی معاشی پالیسیوں کو ملک میں معاشی مسائل اور موجودہ مہنگائی کی اس لہر کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق صدر ایردوان کی ملک میں مقبولیت کی ایک وجہ دو دہائیوں سے جاری ان کی حکومت کے دوران ملک میں ترقی اور استحکام کو قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن ملک میں جاری ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے ایردوان کے لیے 2023 کے وسط میں ہونے والے انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونا ایک چیلنج بن گیا ہے۔
ترکی میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق صدر ایردوان اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کا گروپ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔
بدلتا سیاسی مںظر
کونسل آن فارن ریلیشنز میں مشرقِ وسطی اور افریقہ کے امور کے ماہر اسٹیون اے کک نے ایردوان کو درپیش چیلنجز کے بارے میں گزشتہ برس نومبر میں لکھا تھا کہ ترکی میں ’جو بویا تھا وہ کاٹنے‘ کے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔
اسٹیون کک کے مطابق ترکی کو بین الاقوامی تنہائی، معاشی ابتری کا سامنا ہے اور ایردوان کی صحت سے متعلق بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ متعدد مبصرین اور مخالفین کے نزدیک حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ حزبِ مخالف کی سیاسی جماعتیں ری پبلکن پارٹی، ایی پارٹی (گڈ پارٹی) اور دیگر اس قدر پُر اعتماد ہیں کہ وہ قبل از وقت انتخابات کی حمایت کر رہی ہیں۔ یہ جماعتیں ترکی میں بااختیار صدارتی نظام کے بجائے پارلیمانی اور صدارتی طرز کے ملے جلے نظام کو بحال کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن 'اے کے پی' دور میں ہونے والی قانون سازی کی وجہ سے ایردوان کی مرکزی حیثیت پر فوری کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ان کے مطابق ایردوان نے اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کے لیے اپنے پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے تگ و دو شروع کی ہے۔
ترک حکومت کے حامی اخبار ’ڈیلی صباح‘ میں دفاعی اور خارجہ امور کور کرنے والی ترک صحافی نور ایوزکان کے مطابق گزشتہ سال کے آخر میں ترکی نے سفارتی سطح پر تعلقات کی بہتری کے لیے کوششیں تیز کر دی تھیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 2022 میں ان کے نتائج آنا شروع ہوں گے۔
انہوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ترکی دو طرفہ تعلقات میں اختلافِ رائے کے باوجود روس، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور مشترکہ مسائل کے قابلِ قبول حل تلاش کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
نور ایوزکان کے مطابق ترکی علاقائی سطح پر نئے اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے تحت ترکی نے خلیجی ممالک، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اسرائیل، مصر اور آرمینیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوششیں گزشتہ برس سے تیز کر دی ہیں۔
اس سلسلے میں خاص طور پر گزشتہ برس نومبر سے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے ایردوان کی بڑھتی ہوئی قربت کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
صدر ایردوان نے رواں ماہ کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ وہ فروری میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے جس کے دوران ترک مصنوعات کی برآمدات میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر بات چیت متوقع ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النیہان نے انقرہ کا دورہ کیا تھا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے اعلانات سامنے آئے تھے۔
اس پیش رفت کو اس لیے اہمیت دی جارہی ہے کیوں کہ امارات اور سعودی عرب کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں طویل سرد مہری کے بعد اب بہتری کی کوششیں ماضی کی پالیسی سے مختلف ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں ولی عہد شیخ محمد بن زید 2012 کے بعد پہلے اعلیٰ ترین اماراتی عہدے دار تھے جنہوں نے ترکی کا دورہ کیا۔ اس سے قبل شام، خلیج اور لیبیا میں ترکی کے کردار کی وجہ سے یو اے ای کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے تھے۔
یہ اختلافات اس وقت مزید شدید ہو گئے تھے جب ترکی نے خطے میں تنظیم اخوان المسلمین کی حمایت شروع کر دی تھی۔ امارات سمیت دیگر عرب ممالک اس تنظیم کو اپنی قومی سلامتی اور موروثی نظامِ حکومت کو درپیش بڑے خطرات میں شمار کرتے ہیں۔
ایردوان کی حکومت متحدہ عرب امارات پر امریکہ میں مقیم مذہبی اسکالر فتح اللہ گولن کے نیٹ ورک کی مدد کا شبہہ ظاہر کرتی آئی ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے 2016 میں ایردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات 2018 میں اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خشوگی کا قتل ہوا تھا۔
اس واقعے کے بعد صدر ایردوان نے اپنے ایک بیان میں اگرچہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا نام نہیں لیا تھا لیکن یہ ضرور کہا تھا کہ اس قتل کے احکامات ’اعلٰی سطح‘ سے آئے تھے۔
صحافی خشوگی کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور 2020 میں سعودی عرب نے ملک میں ترکی کی درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی تھی۔
گزشتہ برس فروری میں امریکہ کے ایک انٹیلی جنس جائزے میں یہ کہا گیا تھا کہ محمد بن سلمان نے صحافی خشوگی کے قتل کی توثیق کی تھی۔ لیکن سعودی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
ایردوان کا دورۂ سعودی عرب کتنا اہم؟
ایردوان سے تین جنوری کو ترک برآمد کنندگان کی تقریب میں ایک بزنس وومن نے سعودی عرب سے تعلقات کی بہتری کے بارے میں سوال کیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں ایردوان نے کہا تھا کہ وہ فروری میں میرے منتظر ہوں گے۔ لیکن اس بیان میں انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ سعودی بادشاہ سلمان بن عبد العزیز سے ملاقات کریں گے یا عملاً ملک کے حکمران ولی عہد محمد بن سلمان سے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق گزشتہ ماہ قطر کے دورے کے موقعے پر ایردوان نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی کوشش کی تھی جس میں انہیں کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔
ترک صحافی فہیم تاستیکن کے مطابق آئندہ ماہ اپنے دورے میں منصب کے اعتبار سے ایردوان کو سعودی فرماں روا سے ملنا چاہیے۔ لیکن دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے سعودی ولی عہد سے ایردوان کی مفاہمت ضروری ہے جنہیں ترکی صحافی جمال خشوگی کے قتل کا ملزم گردانتا رہا ہے۔
مشرقِ وسطی سے متعلق تجزیات شائع کرنے والی ویب سائٹ ’ال مونیٹر‘ کے لیے اپنے مضمون میں فہیم تاستیکن نے لکھا ہے کہ داخلی معاشی دباؤ کے بعد سعودی عرب سے تعلقات کی کوششیں دیکھتے ہوئے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فریقین جمال خشوگی کے معاملے کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔
خلیج میں ترکی کا کردار
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر سمیت خلیج تعاون کونسل میں شامل ممالک نے 2017 میں قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کیے تھے تو ترکی نے قطر کی حمایت جاری رکھی تھی۔
قطر میں ترکی کا فوجی اڈہ بھی ہے۔ اس اڈے کو مبصرین خلیجی ممالک سے قطر کی کشیدگی کے دوران اس کی ڈھال قرار دیتے تھے۔
گزشتہ برس جنوری میں قطر کے سعودی عرب اور متحدہ امارات سمیت خلیج تعاون کونسل کے رُکن ممالک سے تعلقات بحال ہو چکے ہیں اور ترکی بھی قطر ہی کے راستے ماضی میں ٹوٹنے والے تعلقات دوبارہ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ، روس اور مغرب
گزشتہ دو برسوں میں یورپ اور امریکہ کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں کشیدگی رہی ہے۔
یورپی کونسل آن فارن ریلشنز کی سینئر فیلو اصلی ایدنتاشبش کے مطابق حالیہ برسوں میں ترکی اور امریکہ کے درمیان شام کی معاملے پر بد اعتمادی سامنے آئی۔ ترکی امریکہ پر شام میں کرد عسکریت پسندوں اور اپنے مخالف ترک مذہبی لیڈر فتح اللہ گولن کی پشت پناہی کے الزامات عائد کرتا ہے۔
اصلی ایدنتاشبش کے ’فارن افیئرز‘ میگزین میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق دو دہائیوں پر محیط ایردوان کے دورِ اقتدار میں یورپی یونین کی رکنیت کے لیے ترکی کی دلچسپی میں کمی آئی ہے۔ اس کے مقابلے میں ترکی علاقائی سطح پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
ان کے مطابق لیبیا اور شام میں اپنا رسوخ بڑھانے کے لیے ترکی نے روس کے ساتھ تعلقات بڑھائے۔ اس کے علاوہ چین سے کرونا ویکسین کی خریداری اور ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ ہونے والی سلوک پر تنقید کرنے سے گریز کرکے ترکی نے چین کو بھی اپنا حامی بنایا ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکہ سے متعلق ایردوان کی پالیسی میں بھی تبدیلی آتی رہی ہے۔
ترکی کی ایس 400 ساختہ روسی دفاعی نظام کی خریدرای پر امریکہ اور نیٹو سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور اسی بنیاد پر 2019 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایف 35 پروگرام سے ترکی کو خارج کر دیا تھا۔
رواں برس امریکہ کے صدر بائیڈن نے آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی قرار دیا تو ترکی نے سفارتی سطح پر احتجاج کیا تھا۔ صدر بائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی صدر ایردوان کے طرزِ حکمرانی کے ناقد رہے ہیں۔
امریکہ ترکی میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور حکومت پر تنقید کرنے والوں سے ریاستی برتاؤ پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں امریکہ سمیت 10 ممالک نے ترکی میں چار سال سے قید سماجی و فلاحی کارکن عثمانہ کوالہ کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اس مطالبے پر طیب ایردوان سے شدید ردِّ عمل ظاہر کیا تھا اور عثمانہ کوالہ کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے سفیروں کو ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دے دیا تھا۔
لیکن ساتھ ہی ایردوان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں اٹلی کے شہر روم میں جی 20 ممالک کے اجلاس میں صدر بائیڈن اور طیب ایردوان کی ملاقات ہوئی تھی۔
ترکی امریکہ کی لاک ہیڈ مارٹن کمپنی سے 40 ایف 16 طیارے اور اپنی فضائیہ کے تقریباً 80 لڑاکا طیاروں کو جدید بنانے کی کٹس خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس ملاقات میں جو بائیڈن نے واضح کر دیا تھا کہ ایک واضح طریقہ کار سے گزر کر ہی اس معاملے پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔
دونوں سربراہانِ مملکت اس سے قبل گزشتہ برس جون میں برسلز میں ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس میں بھی ملاقات کر چکے تھے۔ لیکن ان ملاقاتوں میں روس سے دفاعی نظام کی خریداری کے بعد پیدا ہونے والی سرد مہری دور نہیں ہو سکی تھی۔
امریکہ سے تعلقات میں بہتری کی کوشش
اس سال کے آغاز میں ترکی نے افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے موقع پر بھی کابل اڈے کی سیکیورٹی سنبھالنے کی پیش کش کی تھی جسے مبصرین نے ایردوان کی امریکہ سے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش قرار دیا تھا۔
امریکہ کے مؤقر اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ کی استنبول میں بیورو چیف کارلوٹا گال نے گزشتہ برس ترکی کے افغانستان میں کردار پر ایک مضمون لکھا تھا کہ ایردوان کو اس وقت اپنے ملک میں مغربی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی اسی لیے انہوں نے روس کے خلاف یوکرین کی حمایت کر کے ماسکو کو برہم کیا اور روس کے انتباہ کے باوجود پولینڈ کو ترکی میں تیار کردہ ڈرونز فروخت کیے تھے۔
لیکن تاحال امریکہ اور یورپ کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں بہتری سے متعلق ایردوان کو بڑی کام یابی حاصل نہں ہوسکی ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں صدر بائیڈن نے امریکہ کی میزبانی میں ہونے والی جمہوریت کانفرنس میں ترکی کو مدعو نہیں کیا تھا۔
اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے لیے اپنے آرٹیکل میں خارجہ امور کے تجزیہ کار کمال کرشجی نے لکھا تھا کہ ترکی کو جمہوریت سمٹ میں شامل نہ کرنا ترکی کے لیے ایک بہتر فیصلہ ثابت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا اگر ترکی کو اس سمٹ میں بلایا جاتا تو ملکی سیاست میں کمزور ہونے والے ایردوان کو نئی طاقت ملتی۔
’میز پر اپنے لیے کرسی‘
ترک صحافی اصلی ایدنتاشبش کا کہنا ہے کہ ایردوان کی اصل مہارت یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی نظام میں پائے جانے والے خلا کا فائدہ اٹھا کر امریکہ اور روس کو ایک دوسرے کے سامنے لانے کا کھیل جانتے ہیں۔
وہ اس کی مثال یہ دیتی ہیں کہ شام میں ترکی کی موجودگی امریکی کی حمایت یافتہ کرد فورسز کے لیے مشکلات کا باعث تھی لیکن امریکہ اسے شام میں روس کے بڑھتے ہوئے کردار کے مقابلے میں ایک لیوریج تصور کرتا تھا۔
ان کے مطابق اسی طرح جب 2019 میں روس اور متحدہ عرب امارات کی مدد سے لیبیا میں ملیشیا کے لیڈر جنرل خلیفہ حفتر نے پیش قدمی کی تو مغربی حکومتیں اس صورتِ حال سے لاتعلق رہیں۔ لیکن ترکی نے لیبیا میں مداخلت کی اور حفتر کے خلاف کارروائیوں میں شامل بھی ہوا۔
ان کے مطابق ترک مبصرین عالمی سیاست میں ترکی کی اس پالیسی کو اکثر اس طرح بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح میز پر ایک کرسی حاصل ہونی چاہیے۔
آئندہ کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟
حکومت کے حامی تھنک ٹینک سیٹا کے جنرل کوآرڈینیٹر اور تجزیہ کار برہانتین دران کے مطابق صدر بائیڈن نے تعلقات کو معمول پر لانے کا جو عندیہ دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی صف بندی ہوئی ہے۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے اس عمل میں ترکی، عرب امارات اور اسرائیل نمایاں ترین کردار بن کر ابھرے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تعلقات کو معمول پر لانے کے اس عمل نے گزشتہ برس ترکی کی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کیا تھا۔
برہانتین کے مطابق خطے کے حالات بدل رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ساتھ ترکی کے تعلقات کے بارے میں زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ لیکن اسرائیل، مصر اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کا نقش 2022 پر نظر آئے گا۔
برہانتین کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ صدر ایردوان کی قیادت میں ترکی عالمی نظام میں اپنا مقام بہتر کرنے اور واضح کردار ادا کرنے کی دیرینہ خواہش رکھتا ہے۔ سفارتی سطح پر حالات معمول پر لانے کے ساتھ ’ہارڈ پاؤر‘ کے استعمال سے بھی یہ مقصد حاصل ہوتا ہے لیکن 2022 کے لیے باہمی تعاون پر مبنی پالیسی اختیار کی جائے گی۔
ان کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں ترک ممالک کی تنظیم اور دسمبر میں تیسری ترکی افریقہ پارٹنر شپ سمٹ سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل کی حکمت عملی کیا ہوگی۔
برہانتین خارجہ تعلقات میں بہتری کے لیے ترک صدر کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ ایردوان نے 2021 میں 14 ممالک کے دورے کیے اور 25 سربراہان مملکت کی میزبانی کی ہے۔
کونسل آن فارن ریلیشنز سے منسلک ماہر اسٹیون اے کک کے مطابق یہ واضح نہیں کہ عالمی سطح پر سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں ترکی کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کتنی مدد گار ثابت ہوں گی۔
ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایردوان ترکی کے معاشی مسائل کے لیے غیر ملکی سازشوں، ترکی میں شرحِ سود پر اثر انداز ہو کر معاشی پالیسوں کو کنٹرول کرنے والی سرمایہ کاروں کی لابی، سی آئی اے اور مغربی طاقتوں کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن تک عوام کو معلوم ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کا بنیادی سبب صدر ایردوان کی بدانتظامی اور معاشی پالیسیاں ہیں۔