پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے یورپی یونین کو آڑے ہاتھوں لینے پر پاکستان کے سیاسی اور کاروباری حلقے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کاروباری حلقوں کو خدشہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے بیان سے یورپی یونین کے ممالک پاکستان کے ساتھ اپنے تجارتی روابط محدود کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں پنجاب کے شہر میلسی میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ یورپی یونین پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ وہ یوکرین میں روسی حملے کی مذمت کرے، لیکن کیا کبھی یورپی یونین نے کشمیر میں اُن کے بقول بھارت میں غیر قانونی اقدامات کی مذمت کی ہے؟
البتہ تجزیہ کار وزیرِ اعظم کے اس بیان پر مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں، بعض کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے دو ٹوک مؤقف اپنایا جب کہ بعض تجزیہ کاروں کے بقول کشمیر کے حالات کا یوکرین سے موازنہ درست نہیں ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں پاکستان میں تعینات یورپی ممالک کے سفارت کاروں نے حکومتِ پاکستان کو خط لکھا تھا جس میں زور دیا گیا تھا کہ وہ یوکرین پر روسی حملے کی کھل کر مذمت کرے۔ تاہم پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ کسی بھی تنازع میں فریق نہیں بنے گا۔
البتہ وزیرِ اعظم عمران خان نے یورپی ممالک کے اس مطالبے پر عوامی جلسے میں کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ عمران خان نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے پر بھی تنقید کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو کبھی یہ فیصلہ نہ کرتے کیوں کہ اس کی پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑی۔
اُن کے بقول پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث 80 ہزار سے سیکیورٹی اہل کار اور عام شہری ہلاک ہوئے اور پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا۔
بین الاقوامی امور کے ماہر مونس احمر کا کہنا ہے کہ جب اقوام ِمتحدہ کے آزاد رکن ملک پر کوئی دوسرا ملک قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس بار ے میں ان کے خیال میں کوئی واضح مؤقف اختیار نہ کرنا اور اس اقدام کی مذمت نہ کرنا اور اسے کشمیر یا افغانستان سے جوڑنا کوئی مناسب بات نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مونس احمر کا کہنا تھا کہ یہ صرف یورپی ممالک کی بات نہیں ہے، اقوامِ متحدہ کے بیشتر رُکن ممالک نے روسی جارحیت کی مذمت کی ہے۔
مونس احمر کے بقول پاکستان کا دفتر خارجہ پہلے ہی یورپی ممالک کے سفیروں کے خط پر اپنا ردعمل دے چکا ہے تو پھر وزیراعظم عمران خان کو بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی۔
ان کے بقول اس بیان کی وجہ سے بیرون ملک کوئی اچھا پیغام نہیں جائےگا جو پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔
مونس احمر کہتے ہیں کہ یوکرین کے معاملے میں کوئی واضح مؤقف اختیار نہ کرنے کی وجہ سے مغربی ممالک کی طرف سے پاکستان کو بظاہر دباؤ کا سامنا ہےاور ان کے خیال میں وزیر اعظم کے بیان میں یہ بات عیاں ہے۔
'دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی اس بحران میں غیر جانب دار ہیں'
روس کے لیے پاکستان کے سابق سفیر شاہد امین کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کے تنازع میں صرف پاکستان ہی غیر جانب دار نہیں ہے بلکہ دنیا کے 30 سے زائد ممالک بشمول بھارت ایسے ممالک ہیں جو غیر جانب دار طرزِعمل اختیار کیے ہوئے ہیں تو پاکستان کا ہی کیوں نام لیا جائے ۔
اگرچہ ایک تاثر ہے کہ وزیرِ اعظم کو اس طرح کھلے عام ایک عوامی جلسے میں مغربی ممالک پر تنقید کرنے کے بجائے یہ معاملہ سفارتی سطح پر اٹھانا چاہے تھا لیکن شاہد امین نے کہا کہ یورپی یونین کے سفارت کاروں نے کھلے عام پاکستان کے بارے میں بیان دے کر سفارتی آداب کو نظر انداز کیا ہے۔
شاہد امین کا کہنا ہے کہ شاید یورپی یونین کے ممالک کی تشویش بجا ہو لیکن کھلے عام ایک خطے لکھنے کے بجائے سفارتی سطح پر پاکستان کے سامنے یہ معا ملہ رکھا جا سکتا تھا۔
لیکن شاہد امین کا کہنا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر پاکستان کے مؤقف اور وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان کی وجہ سے ان کے بقول یورپی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔
کیا وزیرِ اعظم کا بیان سیاسی مصلحت تھا؟
بین الاقوا می امور کے تجزیہ کارنجم رفیق کا کہنا ہے کہ ایک عوامی جلسے میں مغربی ممالک پر تنقید کرنے میں وزیرِاعظم کے پیشِ نظر سیاسی مصلحت ہو سکتی ہے جب حزبِ اختلاف نے ان کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پیش کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ اس لیے نجم رفیق کے بقول وزیرِ اعظم کا بیان "چائے کی پیالی میں طوفان سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔"
لیکن نجم رفیق نہیں سمجھتے کہ وزیر اعظم کے بیان کے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے کوئی مضمرات ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ بیان بظاہر اندرونی سیاسی صورتِ حال کے پیش نظر دیا گیا ہے اور یہ تاثر درست نہیں ہے کہ پاکستان کسی مغرب مخالف کیمپ میں شامل ہو رہاہے۔
یادر ہے کہ عمران خان پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں ہے اور اسلام آباد یورپی ممالک، امریکہ اور چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے۔
لیکن نجم رفیق کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ پاکستان اپنی پوزیشن واضح کرے کہ یوکرین کے معاملے پر مغرب کے ساتھ ہے یا نہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہر اعجاز حیدر کا کہنا ہے کہ خارجہ امور کے معاملات پر بیان صرف دفتر خارجہ کی سطح پر دینا مناسب ہے۔اور جب دفتر خارجہ پہلے ہی مغربی ممالک کے سفیروں کے خط کو سفارتی آداب کے خلاف قرار دے چکا ہے تو عمران خان کی بیان کی ضرورت نہیں تھی۔
لیکن اعجاز حید نے کہا کہ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو بعض اوقات سیاسی رہنما اپنی مقبولیت میں اضافے کے لیے عوامی جلسوں میں خارجہ پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
اعجاز حیدر کا کہنا ہے کہ کہ وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے پہلے یورپ اور امریکہ کی طرف سے ایسے اشارے مل رہے تھے کہ وہ یوکرین کے معاملے پر پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کےبقول نہ صرف پاکستان کو دباؤ کا سامنا ہے بلکہ بھارت جیسے ممالک کو بھی دباؤ کا سامنا ہے جنہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کی مذمت کے لیے پیش کی گئی قرار داد کے حق میں ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔