- By علی فرقان
سندھ ہاؤس میں جمعرات کو کیا کچھ ہوتا رہا؟
وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد سے وفاقی دارالحکومت میں سیاسی گہما گہمی جاری ہے تاہم گزشتہ شب سے اسلام آباد کا سندھ ہاؤس ملکی سیاست کا مرکز ہوا ہے۔
اسلام آباد میں سندھ ہاؤس حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کے اس بیان کے بعد توجہ کا مرکز بنا جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت کے متعدد اراکینِ اسمبلی حزبِ اختلاف کے پاس پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اس بیان کے بعد حکومتی رہنماؤں نے الزام عائد کیے کہ حزبِ اختلاف نے ان کے اراکینِ اسمبلی کو سندھ ہاؤس میں یرغمال بنا رکھا ہے۔
حکومتی رہنماؤں کی جانب سے سندھ ہاؤس کی نگرانی کے علاوہ وہاں آپریشن کرنے کے بیانات کے بعد جمعرات کو وہاں قیام پذیر حکومتی اراکین سامنے آ گئے۔
سندھ ہاؤس میں قیام پذیر حکومت سے ناراض اراکین راجہ ریاض، نواب شیر وسیر نے نیوز چینلز کو انٹرویو دیے اور بتایا کہ وہ اپنی رضا مندی سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔
پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ نے وائس آف امریکہ کے حکومت کی جانب سے سندھ ہاؤس پر ممکنہ آپریشن کے سوال پر کہا کہ 'ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔'
انہوں نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر آپریشن فوجداری جرم ہو گا اور اگر حکومت کی جانب سے ایسا کوئی اقدام اٹھایا گیا تو اس کی ذمہ داری وزیرِاعظم عمران خان پر ہو گی۔
حکومت کی جانب سے آپریشن کی اطلاعات کے بعد سندھ ہاؤس پر صوبائی پولیس کے خصوصی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ایکشن کے ڈر سے لوٹے ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ پانچ لوگوں کو 15 سے 20 کروڑ ملے خچروں اور گھوڑوں کی منڈیاں لگ گئیں، باضمیر ہوتے تو استعفیٰ دیتے اسپیکر کو ان ضمیر فروشوں کو تاحیات نا ابل قدر دینے کی کارروائی کرنی چاہیے۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے صورتِ حال پر اپنے بیان میں کہا کہ ممبران کو کوئی ڈرا یا دھمکا نہیں سکتا یہ فیصلوں میں آزاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اندرونی و بیرونی سازشوں کا قانون کے دائرے میں رہ کر مقابلہ کریں گے اور پارٹی مل کر فیصلہ کرے گی کہ صورت حال پر کیا کرنا ہے۔
سندھ ہاؤس کے باہر میڈیا بھی موجود ہے اور سیاسی سرگرمی کے مرکز سے رپورٹنگ کی جا رہی ہے۔
حکومت سندھ کے زیر انتظام صوبائی اراکین اسمبلی کی رہائش کے لیے قائم سندھ ہاؤس قومی اسمبلی سے لگ بھگ ایک کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
سندھ ہاؤس وفاقی وزرا کی رہائش کے لیے قائم وزرا قالونی اور سپریم کورٹ کے ججز کی رہائش گاہ کی کالونی سے متصل ہے۔
بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب ہاؤس بھی سندھ ہاؤس کے قریب ہی واقع ہیں۔
سندھ ہاؤس میں گورنر، وزیر اعلی، چیف جسٹس سندھ کی انیکسی کے علاوہ اراکین صوبائی اسمبلی کے لیے 34 رہائشی کمرے موجود ہیں۔
سیاسی بحران کے حل کے لیے حکومتی اتحادیوں کا مائنس عمران خان فارمولا پیش
حکومت کے اتحادیوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) اور مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں نے حکومت کی کمزور ہوتی پوزیشن پر ایک تجویز پیش کی ہے۔
پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ حکومت کا بچنا مشکل لگ رہا ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی تو کیسے بچ پائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مشیران صحیح ہوئے تو ایسے فیصلے ہو سکتے ہیں جس سے جمہوریت اور تحریک انصاف کی حکومت بھی بچ سکتی ہے۔
پروگرام کے میزبان نے سوال کیا کہ کیا اب بھی عمران خان چاہیں تو پی ٹی آئی کی حکومت بچا سکتے ہیں اور ان کا بچنا مشکل ہے؟ اس پر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ان کی رائے ہے کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کا کوئی بھی فیصلہ ہو وزیرِ اعظم کا بچنا مشکل ہے۔
پروگرام میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے تجویز دی کہ "اگر وزیرِ اعظم سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہو تی ہے تو آخری حد تک ایڈونچر کرنے کے بجائے اور پی ٹی آئی کے ایسے شخص کو آگے لانے کی کوششں کریں جو متفقہ امیدوار بن سکتا ہو۔ میرے کے خیال میں یہ بری تجویز نہیں ہے۔"
کپتان نے کہا ہے گھبرانا بالکل بھی نہیں: سینیٹر فیصل جاوید
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ کپتان عمران خان نے کہا ہے کہ گھبرانا بالکل بھی نہیں ہے اللہ تعالی کی مدد سے جیت ہماری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس جماعت کے ساتھ قوم کھڑی ہو اسے پریشانی کیسی۔ ان کے بقول 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر ہونے والے جلسے میں وہ بتا دیں گے کہ پاکستان کس کے ساتھ کھڑا ہے۔
جو آج ہو رہا ہے یہ تو ہونا تھا: شہباز گل
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں جوہو رہا ہے یہ تو ہونا تھا۔ کوئی بے وفائی کرنے کی کئی وجوہات اور بہانے بتائے گا تو کوئی دغا بازی کا کوئی بہانہ تراشے گا۔