سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے والی لڑکی دعا زہرا کو شیلٹر ہوم منتقل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو ہدایت کی ہے کہ لڑکی کا میڈیکل کرایا جائے۔
کراچی پولیس نے بہاولنگر سے بازیاب کرائی گئی لڑکی دعا زہرا اور ان کے شوہر ظہیر احمد کو پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا۔ اس موقعے پر دعا نے کمرۂ عدالت میں موجود اپنے والدین سے ملنے سے انکار کر دیا۔
عدالت کے روبرو دعا زہرا نے حلفیہ بیان میں کہا کہ ان کی عمر 18 برس ہے اور وہ خود گھر چھوڑ کر گئیں اور مرضی سے ظہیر احمد سے شادی کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ مہدی کاظمی آپ کے کون ہیں؟ جس پر دعا نے کہا کہ وہ ان کے والد ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اب آپ کس کے ساتھ جانا چاہتی ہیں جس پر دعا نے کہا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔
جسٹس جنید غفار نے مہدی کاظمی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا گمشدگی کا کیس تو ویسے ہی غیر مؤثر ہو گیا، بچی خود کہہ رہی ہے کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا۔
مہدی کاظمی کے وکیل نے عدالت سے اپیل کی کہ دعا کی عمر کا تعین اور والدین سے ملاقات کرانا ضروری ہے۔
دعا نے اپنے والدین سے ملنے سے انکار کیا تو عدالت نے کہا کہ اگر بچی والدین سے ملنا نہیں چاہتی تو زبردستی نہیں کر سکتے۔
اس موقع پر مہدی کاظمی کے وکیل نے عدالت سے اپیل کی کہ بچی کو دارالامان بھیجنے کا حکم دیں۔
عدالت نے دعا زہرا کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے دو روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور سماعت آٹھ جون تک کے لیےملتوی کر دی۔
دعا زہرا دو ماہ قبل 16 اپریل کو رمضان کے مہینے میں سحری کے بعد کراچی میں شاہ فیصل ٹاؤن کے علاقے گولڈن ٹاؤن میں اپنے گھر سے 'لاپتا' ہو گئی تھیں، جس پر ان کے والدین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو اغواکر لیا گیا ہے۔
لڑکی کے اغوا کی خبر سامنے آنے پر مقامی پولیس افسران کو اعلیٰ حکام نے معطل بھی کر دیا تھا۔ البتہ بعدازاں دعا زہرا کا سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان سامنے آیا کہ انہیں اغوا نہیں کیا گیا ۔ ان کی عمر 18 برس ہے اور انہوں نے اپنی مرضی سے لاہور میں ظہیر احمد نامی نوجوان سے شادی کر لی ہے۔
دعا کے والد سید مہدی کاظمی نے اس شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا، جن کا کہنا ہے کہ ان کی شادی کو ابھی 15 برس ہوئے ہیں۔ دعا اپنی عمر سے متعلق غلط بیانی کر رہی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے دعا زہرا کی بازیابی سے متعلق پولیس کی رپورٹ کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کامران فضل سے چارج واپس لینے کی ہدایت کی تھی۔
عدالت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو حکم دیا تھا کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کے حوالے کیا جائے۔ وفاقی کابینہ کی منظوری سے سندھ کے آئی جی کی تبدیلی کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
بعدازاں کراچی اور لاہور کی پولیس نے پنجاب کے شہر چشتیاں میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے دعا اور ان کے شوہر ظہیر سمیت ایک سہولت کار کو حراست میں لے کر کراچی منتقل کر دیا تھا۔