سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے کے خاندان کے کاروباری طرز عمل پر سول تفتیش کے سلسلے میں ریاست نیویارک کے اٹارنی جنرل کے سامنے پیش ہو کر سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
ایسا انہوں نے امریکہ کی پانچویں آئینی ترمیم میں دیے گئے تحفظ کا استعمال کرتے ہوئے کیا۔
اٹارنی جنرل لیٹیٹا جیمز کی جانب سے شروع کی گئی تفتیش جس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ ٹرمپ آرگنائزیشن نے بہتر شرائط پر قرضے حاصل کرنے کے لیے کیا اپنی ملکیت کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر بیان کی ہیں، ساتھ ہی یہ بھی تفتیش کرنا ہے کہ آیا ان کے ادارےنے ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثاثوں کی قیمت اصؒل سے کم بتائی ہے۔ ٹرمپ، ان کے بیٹے ڈانلڈ ٹرمپ جونئیر اور بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے اس تفتیش میں بیان دینے سے بچنے کے لیے ناکام ے قانونی جنگ لڑی تھی۔
ٹرمپ نے اٹارنی جنرل کے دفتر میں حاضری دینے کے محض ایک گھنٹے بعد ایک بیان میں کہا کہ ’’میں نے امریکی آئین کے اندر دیےگئے حقوق اور ضمانتوں کے تحت ان سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا۔‘‘
امریکہ کی پانچویں آئینی ترمیم کے تحت کوئی بھی فرد بیان دینے سے انکار کر سکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی جانب سے ان سوالات کا جواب نہ دینے کے فیصلے کے نتائج ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ تفتیش عدالت میں ٹرائل تک پہنچی تو جیوری کے اراکین اس خاموشی کو مد نظر رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی طور پر مخالفین کی تنقید کو مزید مواد فراہم ہو سکتا ہے کہ آیا ٹرمپ کچھ چھپا رہے ہیں۔
جیمز کا کہنا ہے کہ اس کی تفتیش کے دوران اہم ثبوت ملے ہیں کہ ٹرمپ آرگنائزیشن جو ہوٹل، گالف کورس، اور دوسرے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کا انتظام کرتی ہے نے بینکوں اور ٹیکس حکام کو اپنے مالیاتی حالات کے بارے میں غلط معلومات فراہم کیں۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کسی بھی قسم کی غیر قانونی اقدام کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیمز، جو ایک ڈیموکریٹ ہیں وہ برسوں سے جاری دشمنی کا اظہار کر رہی ہیں۔
انہوں نے پانچویں ترمیم کا سہارا لینے پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب آپکا خاندان، کمپنی اور دوسرے لوگوں کو سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہو تو ایسے میں آپ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔
یاد رہے کہ ماضی میں ٹرمپ دوسرے افراد کو پانچویں ترمیم کا سہارا لینے پر تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔
(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا)