پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں خواتین کے لیے مخصوص فیملی پارک کو احتجاج اور مذہبی شخصیات کے دباؤ کے بعد بند کرنے پر بعض حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
شہر کی فوجی چھاؤنی کی حدود میں قائم اس خواتین پارک کو کئی برس قبل تعمیر کیا گیا تھا اور اس میں صرف خواتین کو اندر جانے کی اجازت تھی۔
بنوں پریس کلب کے عہدے دار محمد وسیم خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس پارک میں خواتین کو دس سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ داخلے کی اجازت تھی۔ دس سال یا اس سے بڑے بچوں کاپارک میں داخلہ منع تھا۔
وسیم خان کے بقول پاکستان کے 14 اگست کے یوم آزادی کے موقع پر اس فیملی پارک میں کثیر تعداد میں خواتین کے جمع ہونے کے بعد مقامی علما اور مذہبی شخصیات نے اعتراضات اٹھانا شروع کردیے تھے۔
خواتین کے حقوق کےتحفظ کے لیے سرگرم عورت فاؤنڈیشن سے منسلک صائمہ منیر نے بنوں میں خواتین پارک کی بندش پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مخصوص ذہنیت کے حامل افراد اب پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں بھی افغانستان کی طرح طالبان کے نظام کو رائج کرنے کی کوشش میں ہیں اور اس سلسلے میں سب سے پہلے خواتین پر قدغنیں لگا ئی جارہی ہیں۔
انہوں نے صوبائی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس بندش کو فوری طور پر ختم کرے ۔
'پارک کی بندش کی آڑ میں سیاسی مخالفت
خیبرپختونخوا اسمبلی کی رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما شگفتہ ملک نے بھی خواتین فیملی پارک کی بندش کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس مسئلے پر تحریک التوا اسمبلی میں پیش کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت میں انتہا تک جانے والے پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائےاسلام (ٖف) کے اراکین خواتین پارک کی بندش کے لیے متحد ہو چکے ۔
انہوں نے پارک کی بندش کو اس سازش کا حصہ قرار دیا جس کے تحت چند روز قبل سوات کے بعض علاقوں میں طالبان کی موجودگی نے عوام کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔
'پارک میں تفریح کے نام پر فحاشی جاری تھی'
پارک کی بندش کے لیے احتجاج سے متعلق صحافی محمد وسیم نے بتایا کہ منگل کو علما کی ایک 32 رکنی کمیٹی نے فوجی حکام سے ملاقات کی،ملاقات کے بعد پارک کو مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
ان مذہبی شخصیات میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور جے یو آئی (س) سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے مولانا نسیم علی شاہ پیش پیش تھے۔
مولانا نسیم علی شاہ نے فوجی حکام کے ساتھ ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ''اس پارک میں تفریح کے نام پر عریانی اور فحاشی جاری تھی، جس پر تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں نے احتجاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے احتجاج کی بدولت حکام نے پارک کو بند کردیا۔ انہوں نے پارک کی بندش پر فوجی حکام کا شکریہ بھی ادا کیا۔
البتہ فوجی حکام کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
پارک کی بندش سے تعلق صحافی محمد وسیم کہتے ہیں کہ مقامی علما اور سیاسی رہنماؤں کے مذاکرات فوجی حکام سے ہو رہے تھے اور اس میں پولیس اور سول انتظامیہ کے عہدیدار شامل نہیں تھے ۔
انہوں نے کہا کہ پارک کی بندش کا اعلان منگل کی شام میں ہوا ۔ البتہ 14 اگست کے بعد جب مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو پارک میں خواتین کے آنے کا سلسلہ رک گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پارک کی بندش کے فیصلے کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا ہے۔اس احتجاج پر چار نوجوانوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے جسے اب علما کے بقول واپس لے لیا جائے گا۔
علاوہ ازیں علما اور مذہبی شخصیات خواتین پارک کی بندش کے علاوہ بنوں کے دیگر تفریحی مقامات اور مزاروں پر بھی خواتین کے جانے پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
'علما اور عمائدین کی مشاورت سے پارک کھولنے کا فیصلہ کیا جائے گا'
دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد سیف نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ مقامی مسئلہ ہےاور وقتی طور پر ضلعی انتظامیہ نے یہ اقدام اٹھایاہے۔ البتہ صوبائی سطح پر خواتین پارک کی بندش کا کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد خواتین کے اس پارک کو مقامی علما اور عمائدین کو اعتماد میں لے کر کھولنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔اس سلسلے مقامی روایات کے مطابق قواعد و ضوابط وضع کیے جائیں گے۔
بیرسٹر محمد علی سیف کے بقول صوبے میں خواتین کے پارکس اور تفریح کے موقع پہلے ہی بہت کم ہیں، لہٰذا خواتین کے لیے مخصوص پارکس کو زیادہ عرصے تک بند رکھنا مناسب نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بنوں کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) ڈاکٹر محمد اقبال نےدعویٰ کیاہے کہ پارک کو بند نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوجائے گا۔