پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے مبینہ طور پر مرتب کردہ ایک دستاویز منظر عام پر آئی ہے، جس میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے سینکڑوں سوشل میڈیا کارکنان اور بعض نامور صحافیوں کے نام بھی شامل ہیں۔
دستاویز کے مطابق لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے سے متعلق مہم میں ملوث سوشل میڈیا کے کل 580 اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی، جن میں سے شناخت شدہ اکاؤنٹس کی تعداد 168 اور جعلی اکاؤنٹس کی تعداد 238 ہے جب کہ 123 اکاؤنٹس کی شناخت نادرا کے سپرد کر دی گئی ہے۔
دستاویز کے مطابق 18 اکاؤنٹس بھارت اور 33 اکاؤنٹس دیگر ممالک سے چلائے جا رہے ہیں۔
ان 580 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے لسبیلہ حادثے پر فوج کے خلاف دو ہزار 350 منفی پوسٹس کی گئیں۔
رواں سال اگست میں پاکستان آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف آپریشن کے دوران بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں گر کر تباہ ہوا تھا۔
ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر اس حوالے سے منفی مہم چلائی گئی، جس کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ نے شدید مذمت کی تھی جب کہ حکومت نے منفی سوشل میڈیا مہم کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔
حکومت کی جانب سے اس مہم کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی اور خیال کیا جا رہا ہے کہ سامنے آنے والی یہ دستاویز اسی کمیٹی کی مرتب کردہ ہے۔
تاہم صحافیوں اور ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والوں نے اس دستاویز کے منظر عام پر آنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایف آئی اے کی اس دستاویز میں شخصیات کے نہ صرف نام دیے گئے ہیں بلکہ ان کی دیگر ذاتی معلومات بھی عام کر دی گئی ہیں، جس میں ان کے رابطہ نمبرز، گھر کے پتے، آئی ڈی کارڈ اور پاسپورٹ نمبرز شامل ہیں۔
صحافی سمیع ابراہیم کا نام بھی اس دستاویز میں شامل ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قانون کے مطابق کسی بھی ادارے کو کسی شخص کی ذاتی معلومات عام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دستاویز کے ذریعے ان کی انتہائی ذاتی معلومات عام کر دی گئی ہیں اور اب اگر کوئی ان کے بینک اکاؤنٹس یا آئی ڈی کارڈ نمبر کو غلط استعمال کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟
وہ کہتے ہیں کہ اس دستاویز کو منظر عام پر لانے کا مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ حکومت کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر اٹھنے والی آوازوں کو خوف زدہ کرکے خاموش کیا جاسکے۔
صحافی خرم حسین کا نام بھی اس فہرست کاحصہ ہے۔ ان کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ کوئی نہیں چاہے گا کہ اس کی ذاتی معلومات اس طرح سے عام کی جائیں اور انہیں نہیں معلوم کہ اسے کس نے اور کیوں لیک کیا؟
انہوں نے کہا کہ یہ افسوس ناک عمل ہے اور انہیں اس پر تشویش لاحق ہے۔
خرم حسین کہتے ہیں کہ وہ کسی ایسی مہم کا حصہ نہیں بنے اور جس ایک ٹوئٹ کی بنیاد پر ان کا نام فہرست میں شامل کیا گیا ہے، وہ لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے سے ایک ماہ پہلے کی گئی تھی۔
حکومت نے سرکاری طور پر سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی منظر عام پر آنے والی اس فہرست کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے تاہم ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے اسے تنقیدی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
صحافی اقبال خٹک کہتے ہیں کہ یہ تشویش سے بھی بڑی بات ہے کہ کسی فرد پر بھی فردِ جرم عائد ہونے سے پہلے ہی اسے مجرم بناتے ہوئے ذاتی معلومات عام کردی گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ان معلومات کے لیک ہونے سے ان افراد کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ ایسی معلومات عام کرنے کے مضمرات سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو جواب دینا ہوگا کہ یہ حساس معلومات کیسے لیک کر دی گئیں؟ اور سوال کیا کہ ان افراد یا ان کے اہلِ خانہ میں سے کسی کو اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے، تو اس کہ ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی۔
اقبال خٹک کہتے ہیں کہ ان افراد کے نام اور معلومات عام کرنے کا خاص مقصد دکھائی دیتا ہے اور وہ یہ کہ عوام کو اکسایا جائے کہ ان افراد کی مذمت کریں اور یہ دوبارہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور حکومت کے خلاف اظہار خیال نہ کرسکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں صحافتی ادارے پہلے سے سیلف سینسر شپ عائد کیے ہوئے ہیں اور اس قسم کے اقدامات کے نتیجے میں اب سوشل میڈیا پر بھی سیلف سینسرشپ بڑھے گی جو کہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے مناسب نہیں ہے۔
ایف آئی اے کی دستاویز کے مطابق اس مہم میں ملوث 580 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی ہے۔ جس میں سے 178 اکاؤنٹس پر پی ٹی آئی کا جھنڈا یا نشان پائے گئے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس مہم کی ذمہ داری بعض حکومتی رہنماؤں نے سابق حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر عائد کی تھی تاہم پی ٹی آئی اس کی تردید کرتی رہی ہے۔
حکومت نے کہا تھا کہ فوج کے خلاف مہم چلانے والوں پر پیکا اور تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمے درج کیے جائیں گے۔