پاکستان تحریک انصاف ـ(پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے حکومت مخالف لانگ مارچ کے اعلان کے بعد مارچ کے آغاز تک لاہور میں ہی قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران وہ حکومت مخالف تحریک کے حوالے سے مختلف اجلاسوں کی صدارت کریں گے اور انتظامات کا جائزہ لیں گے۔
عمران خان لاہور میں قیام کے دوران اپنے لانگ مارچ میں زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت یقینی بنانے کے لیے متحرک رہیں گے۔ پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان پنجاب میں لانگ مارچ کے حوالے سے حکمتِ عملی بنائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ہر ضلع سے چھ ہزار کارکنان کو لانگ مارچ میں لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اسی طرح کارکنان کے کھانے پینے کے انتظامات مکمل کرنے کا ٹاسک بھی ضلعی تنظیموں کو دیا گیا ہے۔
مرکزی رہنما، ارکانِ اسمبلی اور متعلقہ تنطیمیں قافلے کی قیادت کرتے ہوئے لانگ مارچ میں آئیں گے۔
مشیر داخلہ پنجاب عمر سرفراز چیمہ کہتے ہیں کہ بطور مشیر داخلہ لانگ مارچ کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔تحریک انصاف نے ہمیشہ پرامن ریلیاں اور لانگ مارچ کیے ہیں، پی ٹی آئی نے ہی 126 دن کا پرامن دھرنا دیا تھا۔
انہوں نے لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اپنا آئینی اور جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں گے، بطورِ مشیر داخلہ ان کا فرض ہے لوگوں کی حفاظت یقینی بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ خلاف قانون سرگرمی کے نتیجے میں قانون حرکت میں آئے گا۔
واضح رہے کہ عمران خان گزشتہ چند ماہ سے حکومت مخالف لانگ مارچ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جس کے لیے وہ مختلف مقامات پر جلسوں کے دوران اس تحریک میں اُن کا ساتھ دینے کے لیے حلف بھی لے رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جلسے، جلوس اور احتجاج کرتی رہتی ہیں۔ مگر ریاست کو اسے پرامن بنانے کے لیے دانشمندی سے فیصلے کرنے ہوں گے۔
'پس پردہ مذاکرات میں ناکامی لانگ مارچ کی وجہ ہے'
تجزیہ کار اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی بنیادی طور پر دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ پہلی تو ان کی جھنجلاہٹ ہے، جس کا انہوں نے اپنے بیان میں کہا بھی ہے کہ موجودہ حکومت وقت سے پہلے انتخابات کے لیے نہیں مان رہی۔ دوسری وجہ پسِ پردہ مذاکرات میں ناکامی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عمران خان کو لگتا ہے کہ اگر لانگ مارچ میں دیر ہو گئی تو کہیں حالات بدل نہ جائیں کیوں کہ اس وقت عمران خان سمجھتے ہیں کہ اُن کو بہت زیادہ عوامی حمایت حاصل ہے جس کے باعث وہ نہیں سمجھتے کہ اِس موقع کو ضائع جانے دینا چاہیے۔
واضح رہے کہ عمران خان حال ہی میں پسِ پردہ مذاکرات کی خود تصدیق کرچکے ہیں۔
صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اس سے قبل رواں برس جب 25 مئی کو عمران خان اپنے کارکنان کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے تو اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ وہ چھ دنوں بعد دوبارہ آئیں گے اور اس مرتبہ وہ لاکھوں کے مجمع اور پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔
ان کے بقول اس عرصے میں عمران خان نے وہ باتیں کیں جو وہ گزشتہ کئی برسوں سے کر رہے ہیں، جس میں اپنے سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنا اور تبدیلی سرِفہرست ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی اثنا میں انہیں اپنے سیاسی کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے ایک نیا مسئلہ چاہیے تھا کہ صحافی ارشد شریف کی ہلاکت ہوگئی، جسے وہ ان کے بقول کیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اس لیے کہا ہے کہ کیوں کہ صوبہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے، جس کے باعث وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں سے لوگ بڑی تعداد میں نکل پائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کے بعد دیکھنا ہوگا کہ کیا لوگ راستے سے چھٹنا شروع ہوں گے یا اس میں شامل ہوں گے۔
خیال رہے کہ عمران خان سال 2014 اور 2022 کے اوائل میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرچکے ہیں۔ 2014 کا لانگ مارچ بعد ازاں ایک دھرنے میں تبدیل ہوگیا تھا۔
سہیل وڑائچ کے نزدیک عمران خان کے لانگ مارچ کی ناکامی کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ اگر وہ 40 ہزار سے 60 ہزار بندے اپنے ساتھ لانگ مارچ میں لے جاتے ہیں تو یہ کامیاب ہو گا۔ اُنہوں نے کہا سوال تو یہ ہے کہ اگر لانگ مارچ میں تشدد یا ہنگامہ آرائی کا عنصر آ گیا تو پھر کیا ہو گا؟
اُن کا کہنا تھا کہ دوسری طرف وفاق کی پولیس پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکے گی جب کہ پی ٹی آئی والے آگے جانے کی پوری کوشش کریں گے۔ اگر اس دوران عمران خان نے دھرنا دے دیا تو مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جس سے حکومت کی ساری کارکردگی تعطل کا شکار ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے لانگ مارچ سے متعلق کہتے تو ہیں کہ یہ پرامن ہوگا۔ لیکن یہ پرامن رہتا نہیں ہے۔ جب عمران خان نے دھرنا دیا تھا تب بھی تشدد اور ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ اس لیے عمران خان کو سوچ سمجھ کر لانگ مارچ کرنا چاہیے۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کرتے وقت عمران خان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ 2018 نہیں ہے۔ اگر اُن کا لانگ مارچ ناکام ہو جاتا ہے تو انہیں سیاسی طور پر خاصی مشکلات کا سامنا رہے گا۔
ان کے بقول حکومت کے پاس لانگ مارچ روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کا آپشن موجود ہے۔
ان کا کہناتھا کہ عمران خان لانگ مارچ دو مقاصد کے لیے کر رہے ہیں، جس میں پہلا مقصد فوری انتخابات کا انعقاد اور دوسرا پاکستان کی بری فوج کے سربراہ کی تعیناتی میں ان کی مشاورت شامل ہونا ہے۔
واضح رہے کہ حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے اور آرمی چیف کی تعیناتی آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے تحت ہوگی۔
ان کے بقول عمران خان ہر الزام 'ان' پر ڈال رہے ہیں، وہ ایک سانس میں کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے جب کہ پہلے کہا کرتے تھے کہ وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔
سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی محاذ آرائی چلتی رہتی ہے لیکن یہ روایات کے برعکس ہے کہ صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر جتھوں نے حکومت کرنی ہے تو پاکستان میں بہت سے جتھے موجود ہیں۔ اگر ایسی روایت پڑ گئی تو پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے گا جہاں'' جس کی لاٹھی اس کی بھینس ''کا حساب ہوگا۔
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے لانگ مارچ کا مقصد حکومت پر اپنی باتیں منوانے کے لیے دباؤ بڑھاناہے۔ اگر اِس دوران ہنگامہ آرائی ہوئی یعنی حکومت نے طاقت کا استعمال کیا اور پی ٹی آئی اپنے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹی تو ملک میں تلخی اور بڑھے گی۔ جس کے باعث حالات خراب ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں عمران خان کے لانگ مارچ کی حمایت کریں گی جو ایک خطرناک صورتِ حال ہے کہ وفاقی حکومت پر دو صوبائی حکومتیں دھاوا بولیں گی اور یہ ریاست کے لیے نقصان دہ ہے۔