ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں متاثر ہونے والے ترقی پذیرممالک کی مدد کے لیے قائم گلوبل شیلڈ برائے موسمیاتی رسک نے پاکستان، بنگلہ دیش اور گھانا کو مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ اعلان مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری کوپ27 موسمیاتی کانفرنس میں جرمنی نے کیا ہے جو اس وقت گلوبل شیلڈ کی سربراہی کررہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے جن ممالک کو یہ پیکج فراہم کیا جائے گا ان میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، کوسٹا ریکا، فجی، گھانا، فلپائن اور سینیگال بھی شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو حالیہ سیلاب سے تباہ حال آبادی کی بحالی کے لیے بہت زیادہ وسائل درکار ہیں۔ یہ فنڈ مستقبل میں آنے والی قدرتی آفات میں تیکنیکی مدد فراہم کرے گا البتہ پاکستان کو آفات کے خطرات سے دوچار افراد اور علاقوں کامکمل ڈیٹا مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
شرم الشیخ میں ہونے والے اعلان کے مطابق پروگرام کے تحت سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کو انشورنس اور آفات سے بچاؤ کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔
جرمنی کے چانسلر اولف شولز نے اس شیلڈ کے لیے 17 کروڑ یورو کا اعلان کیا ہے جس میں لگ بھگ آٹھ کروڑ 40 لاکھ یورو شیلڈ کے بنیادی اسٹرکچر کے قیام کے لیے تیکنیکی مد میں فراہم کیے جائیں گے۔ اس اعلان میں تاحال یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ متاثر ممالک کو کتنی رقم فراہم کی جائے گی۔
نقصان امداد سے کئی گنا زیادہ ہے
ماہر ماحولیات ڈاکٹر علی توقیر شیخ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں رواں برس سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے جس کے باعث 30.2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس نقصان کے بعد بحالی کے لیے فوری طور پر 16 ارب ڈالر درکار ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ چند روز قبل جاری ہونے والی عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو 2023 سے 2030 کے درمیان قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے 348 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
اُن کے بقول اگر پاکستان میں یہ سرمایہ نہ لگا تو پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں 20 فی صد تک کمی آسکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے تاہم جی 20 کی طرف سے اب تک اس مد میں بہت کم رقم مختص کی گئی ہے۔
علی توقیرشیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گلوبل شیلڈ فنڈ میں بہت کم رقم ملے گی۔ اس وقت پاکستان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اپنی ضروریات کے مطابق فوری طور پر تمام تفصیلات اور مکمل ڈیٹا تیار کرے اور اس کی بنیاد پر عالمی اداروں سے مدد کے لیے رجوع کرے۔
ان کے مطابق جب تک پاکستان سرمایہ کاری کے لیے منصوبہ فراہم نہیں کرے گا، اس وقت تک پاکستان کو امداد نہیں ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہر شعبے کے لیے الگ اعداد و شمار اور منصوبے فراہم کرنا ہوں گے۔ مثلاً کسی علاقے میں اگر تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیرِ نو کرنی ہے تو اس کے لیے مکمل منصوبہ بندی اور درکار رقوم کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتانا ہوگا کہ کس ضلعے میں یہ امداد درکار ہے۔
ڈیٹا بہت اہم ہے
ماہر ماحولیات مومی سلیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے پاکستان کو سیلاب سے آنے والی تباہی کا ڈیٹا جمع کرنا ہوگا۔ پاکستان کو بتانا ہوگا کہ ایسے کون سے علاقے ہیں جو متاثر ہورہے ہیں۔ اسی ڈیٹا کی بنیاد پر عالمی ادارے پاکستان کو امداد فراہم کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی پہلے ہی بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے مشکل میں ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کو مضبوط بنانا ہوگا کہ خدانخواستہ کوئی تباہی آئے تو کم سے کم نقصان ہو۔
ان کےمطابق اس فنڈ کے لیے پاکستان کو باقاعدہ پالیسی بنانا ہوگی جس کے تحت کسی آفت سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد اور املاک کا مکمل اندازہ لگانا ہو گا تاکہ کسی مشکل کی صورت میں پاکستان اس تمام صورتِ حال سے نبردآزما ہوسکے۔