صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم نے سینیٹ میں عمران خان کی مدد کی جب کہ انہوں نے عام انتخابات میں بھی تحریکِ انصاف کی مدد کی تھی۔
صدر عارف علوی کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے وقت اگرچہ دوسرے فریق کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ وہ غیر جانب دار ہو چکے ہیں اور وہ لوگوں پر دباؤ نہیں ڈال رہے۔ ان کے بقول ’’البتہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی حد تک دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔‘‘
صدر عارف علوی کی اتوار کی شب کراچی میں ایک عشایئے کے دوران صحافیوں، کاروباری شخصیات اور اہم سرمایہ کاروں سے بات چیت مقامی میڈیا پر پیر کو سامنے آئی۔ان کے اس بیان کے سامنے آنے کے بعد ایوانِ صدر کی جانب سے کہا گیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور ان کے معاونین کی جانب سے سینیٹ انتخابات اور الیکشن کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی مبینہ مدد کے حوالے سےان کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا جب کہ یہ من گھڑت اور خود ساختہ ہے۔
اس حوالے سے اس عشائیے میں شریک سینئر صحافی مظہر عباس نے صدر عارف علوی کی طرف سے کی جانے والی ان باتوں کی تصدیق کی کرتے ہوئے بتایا کہ صدر عارف علوی کو چاہیے کہ اس بیان کے حوالے سے وضاحت کے ساتھ سیاق وسباق بھی جاری کر دیتے تاکہ اس میں کوئی ابہام نہ رہتا۔
سینئر صحافی مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس عشائیے میں ہونے والی گفتگو میں میں نے سوال کیا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ الیکشن سمیت کئی معاملات میں حکومت کی مدد کی تھی، ایسا کیا ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے؟ اس پر صدر عارف علوی نے خود ہی کہا کہ انہوں(جنرل باجوہ) نے صرف سینیٹ الیکشن ہی نہیں بلکہ 2018 کے انتخابات میں بھی مدد کی تھی اور یہ بات میں کہہ سکتا ہوں۔
مظہرعباس کے مطابق انہوں نے اس سوال کا جواب بھی دے دیا جو پوچھا ہی نہیں گیا تھا۔ اب اگر وہ تردید کر رہے ہیں تو اس کے سیاق وسباق خود بتا دیں کہ وہ تھا کیا؟
عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے تعلقات خراب ہونے کے حوالے سے مظہرعباس نے کہا کہ اکتوبر میں پہلے معاملات بگڑے اور اس کے بعد کچھ ایسی چیزیں ہوئیں، جن سے حالات خراب ہوئے۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عشایئے میں صدر عارف علوی نے کہا کہ نئے آرمی چیف کے تقرر کا وقت ان کے لیے بہت مشکل وقت تھا۔
مظہر عباس کے مطابق کاروباری شخصیات کے اس عشایئے میں صدر عارف علوی نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت اس وقت ختم ہو گئی اور عبوری سیٹ اپ آگیا، تو اس کا ایک نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا، تو ملک کے اقتصادی حالات مزید مشکل کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ان کے بقول صدر عارف علوی نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ مئی میں حکومت اور عمران خان کے درمیان مذاکرات جاری تھے اور عین ممکن تھا کہ کوئی تصفیہ بھی ہوجاتا لیکن اس دوران 25 مئی کا دھرنا آگیا جس کی وجہ سے یہ تصفیہ نہ ہو سکا۔
مظہرعباس نے کہا کہ انہوں نے صدر عارف علوی سے سوال کیا کہ عمران خان آپ کی کتنی باتیں مانتے ہیں؟ جس پر صدر عارف علوی نے کہا کہ ہمارے درمیان کئی معاملات پر بات ہوتی ہے اور کچھ باتیں وہ مان لیتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے۔ میرا کردار ویسے بھی مشورہ دینے والے کا ہی ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ انہوں نے عمران خان کو اسمبلیوں سے استعفیٰ نہ دینے اور اسمبلیوں کے اندر رہنے کا مشورہ دیا تھا لیکن اسمبلیوں سے باہر نکلنے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔
مظہرعباس نے کہا کہ صدر عارف علوی نے جنرل باجوہ کا نام تو نہیں لیا لیکن انہوں نے کہا تھا کہ نیب کے معاملات میں مداخلت کی جاتی تھی۔
ماضی کی تمام صورتِ حال میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو برطرف کرنے کے حوالے سے صدر عارف علوی نے ایسی کسی بھی بات سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔
حکومت کی تنقید
صدر عارف علوی کے اس بیان کے بعد سے حکومت اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے بیانات سامنے آئے ہیں، جن میں صدر عارف علوی کے بیان کو بنیاد بنا کر عمران خان پر تنقید کی جا رہی ہے۔
ماحولیاتی امور کی وزیر اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے ایک بیان میں کہا کہ عارف علوی کا بیان عمران خان کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔
ان کے مطابق عمران خان اور تحریکِ انصاف کو ان کے بیان کی وضاحت کرنی چاہیے۔
شیری رحمان نے کہا کہ عمران خان آج کل سابق آرمی چیف پر حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگا رہے۔ ان کے صدر کہہ رہے کہ سابق آرمی چیف نے ہی ان کو سینیٹ اور عام انتخابات میں مدد کی۔ تاخیر سے ہی صحیح لیکن عارف علوی نے بھی اعتراف کر لیا کہ عمران خان سلیکٹڈ تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان ایک طرف اسٹیبلشمنٹ پر الزام تراشی اور دوسری طرف ان کو سیاسی اور انتظامی کردار ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ عمران خان اداروں کو سیاسی اور انتظامی معاملات میں مداخلت پر اکسا رہے ہیں۔
’عمران خان کا چہرہ آہستہ آہستہ سامنے آ رہا ہے‘
دوسری جانب لاہور میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیرِ دفاع اور مسلم لیگ (ن) کے رکنِ اسمبلی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ صدرعارف علوی نے بیان دیا کہ جنرل باجوہ ہماری مدد کرتے رہے، اگراس وقت نواز شریف ہاں کر دیتے تو نہ وہ نااہل ہوتے اور نہ ہی مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کے خلاف عدالتی فیصلے آتے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف کا جرم تو بیٹے سے تنخواہ نہ لینا تھا، عمران خان کے تو اس سے کئی گنا بڑے جرائم ہیں۔
انہوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس نے اس کو کھلایا، اس نے اسی کا ہاتھ کاٹا۔ یہ شخص ملک سمیت کسی کے ساتھ وفادارنہیں ہے۔ اس کی وفاداری اقتدار اور دولت کے ساتھ ہے۔
ان کے بقول عمران خان کا چہرہ آہستہ آہستہ سامنے آ رہا ہے۔
اس خبر کے حوالے سے اگرچہ صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے تردید تو سامنے آئی ہے البتہ تحریکِ انصاف کی طرف سے اس بارے میں کوئی واضح بیان جاری نہیں کیا گیا۔
تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ کے خلاف سخت بیانات سامنے آتے رہے ہیں، جن میں ان کے دورِ حکومت میں ہونے والی بعض غلطیوں کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔
موجودہ حکمران اتحادہ کی طرف سے ماضی میں پی ٹی آئی کی مدد اور 2018 کے الیکشن میں فوج کی طرف سے معاونت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، تاہم صدر عارف علوی کی طرف سے ایسا بیان پہلی بار سامنے آیا ہے۔