پاکستان کو حالیہ کچھ عرصے سے جہاں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا چیلنج درپیش ہے تو وہیں افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر کشیدگی نے بھی ماہرین کے مطابق حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
پاکستان میں بعض حلقے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت جس کے بارے میں یہ گمان تھا کہ وہ پاکستان نواز ہے کے ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ اور سرحدی کشیدگی پاکستانی حکام کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔
طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن (پاکستان، افغانستان بارڈر) پر طالبان جنگجوؤں کی جانب سے باڑ اُکھاڑنے کی ویڈیوز بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ جب کہ گزشتہ برس کے آخری دو ماہ کے دوران بلوچستان کے ضلع چمن سے ملحقہ افغان سرحد پر تین بڑی جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرحد تقریباً 2600 کلو میٹر طویل لمبی ہے جس کا تقریباً 1229کلومیٹر پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا جب کہ بقیہ حصہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے ۔
اسلام آباد میں قائم سیکیورٹی تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس ) کی حالیہ جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بھی کہا گیاہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاک افغان سرحد پر عدم تحفظ اور تشدد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں اس کی سرحدوں کے پار سے کل 15 حملے ہوئے جن میں افغانستان کی سرحد سے مجموعی طور پر 13 حملے پاکستان کی حدود میں بلوچستان اورخیبرپختونخوا صوبوں میں ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان سے ان حملوں میں 34 افراد (جن میں 20 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں) ہلاک اور 52 زخمی ہوئے۔
برطانوی نوآبادیاتی دور میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ کی سرکردگی میں قائم کمیشن نے سن 1893 میں برطانوی ہند اور افغانستان کی سرحد کا تعین کیا گیا تھا اور یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے لیکن طالبان اس حد بندی کو نہیں مانتے۔
مبصرین یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس سرحد پر کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے لیکن پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ یہ معاملہ بھی ہے۔
سرحد پرباڑ کی تنصیب کی ضرورت کیوں؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ متصل سرحد پرخاردار باڑ لگانے کا منصوبہ مارچ 2017 میں شروع کیا گیا تھا جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد مشکل اور طویل ہے اور حکام کے مطابق اس کی مسلسل نگرانی کرنا ایک مشکل کام تھا۔ اس لیے اس سرحد پر باڑ لگانے سے غیر قانونی طور پر لوگ سرحد عبور نہیں کر سکیں گے۔
اس باڑ کی تنصیب کے لیے سرکاری ذرائع کے مطابق اربوں روپے خرچ کیے گئے تھے جب کہ کچھ اخباری رپورٹوں میں عسکری ذرائع کے حوالے سے کہا گیاہے کہ اب تک سرحد پرباڑ لگانے کے منصوبے پر 50 کروڑ ڈالرز سے زائد خرچ ہو چکے ہیں۔
اس منصوبے کے تحت سرحد پر نگرانی کے لیے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں تعمیر کی جا رہی ہیں اور جدید ریڈار سسٹم کی تنصیب بھی اس منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا مقصد پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔
سرحد پرخاردارباڑ کی تنصیب کے منصوبے سے باخبر پشاورمیں ایک مقیم سینئر سیکیورٹی افسر کا کہناہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کا منصوبہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے دور میں شروع کیا گیا۔
اُن کے بقول اس منصوبے کا مقصد ٹی ٹی پی جیسی کالعدم شدت پسند تنظیموں اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو مبینہ طور پر افغانستان میں موجود ٹھکانوں سے پاکستان میں کارروائیوں سے روکنا تھا۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذکورہ سیکیورٹی افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان نے افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا اور پڑوسی ملک کی سیکیورٹی صورتِ حال کے پیشِ نظر سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا منصوبہ شروع کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں حملہ کیا گیا تو اس وقت بھی حکام نے یہی بتایا تھا کہ حملہ آور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور پھر کارروائی کر کے واپس افغانستان فرار ہو جاتے ہیں۔
'افغان طالبان جنگجو سرحدی کشیدگی میں ملوث ہیں'
بعض مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومتِ پاکستان پراُمید تھی کہ پاکستان مخالف سمجھے جانے والے سابق حکمراں اشرف غنی اور حامد کرزئی کے برعکس طالبان حکومت باڑ کے معاملے پر پاکستان کی حمایت کرے گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
اُن کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد سرحد پر جھڑپوں اور باڑ اُکھاڑنے کے واقعات میں اضافے نے پاکستان کی تمام تر اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
'طالبان نے باڑ کے معاملے پر سابق حکمرانوں والا مؤقف ہی اپنایا ہے'
سالانہ سیکیورٹی رپورٹ جاری کرنے والے ادارے 'پی آئی پی ایس' کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ سرحد پر باڑ لگانے کے معاملے پر طالبان حکومت نے سابق صدور اشرف غنی اور حامد کرزئی کی طرح ہی سخت اور قوم پرستی پر مبنی مؤقف اپنایا ہے۔
وائس آٖف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عامر رانا کا کہنا تھا افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے غیر قانونی نقل و حرکت نے بھی پاکستان، افغانستان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔
عامر رانا کا کہناہے کہ "افغانستان کی سابق حکومتوں کے ادوار میں تحریکِ طالبان پاکستان اوردیگر عسکریت پسند گروہ سرحد پارحملوں میں ملوث رہے ہیں، مگرطالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کے جنگجو خود سرحد پرکشیدگی اورحملوں میں ملوث رہے ہیں۔"
خیال رہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے 2014 میں شمالی وزیرستان سمیت سابق قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کے بعد ٹی ٹی پی اوردیگرشدت پسند تنظیموں نے اپنے ٹھکانے افغانستان کے سرحدی صوبوں کنڑ، خوست اورننگرہار میں منتقل کر دیے تھے۔
کابل میں قائم افغانستان انالسٹس نیٹ ورک نامی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان، افغانستان سرحد افغانستان کے ایک تہائی صوبوں سے منسلک ہے جب کہ سرحد پر 235 ایسے مقامات ہیں جہاں سے عوام، اسمگلرز اور شدت پسند غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر لیتے ہیں۔
طالبان باڑ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
پاکستان اورافغانستان کے مابین سرحد ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر افغانستان میں قائم ہونے والی ہر منتخب اور غیر منتخب حکومت کا مؤقف یکساں رہا ہے۔ پاکستان ڈیورنڈ لائن کو تو مستقل سرحد مانتا ہے لیکن افغانستان اس کی یہ حیثیت تسلیم نہیں کرتا۔
ماہرین کا کہناہے کہ پاکستان سرحد پر باڑ لگا کرلوگوں کی غیرقانونی آمدورفت اوراسمگلنگ روکنے کے ساتھ ساتھ سرحد کی مستقل حد بندی بھی کرنا چاہتا ہے جسے ماضی کی افغان حکومتوں نے ہمیشہ مسترد کیاہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کو یقین تھا کہ افغانستان کے طالبان حکمران باڑ کے مسئلے پرماضی سے مختلف ہوں مگر پاکستان کے یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔
گزشتہ برس دسمبر میں سرحدی شہر چمن میں پاکستان سیکیورٹی فورسز اورافغان طالبان جنگجوؤں کے مابین کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان سے مقامی علما اورقبائلی عمائدین کا ایک گروپ سرحد پاراسپین بولدک طالبان قیادت سے ملنے بھی گیا تھا۔
پاکستانی وفد میں شامل چمن کے ایک مذہبی رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "پاکستان اس خام خیالی کا شکار تھا کہ افغانستان کے موجودہ طالبان حکمران ماضی کے حکمرانوں کے برعکس پاکستان، افغانستان سرحد کو مستقل سرحد تسلیم کر لیں گے۔"
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "ماضی کے طالبان حکمران، پاکستان اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ قریبی روابط رکھتے تھے، مگر طالبان کی نئی نسل جو اب حکومت چلا رہی ہے اس میں پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔"
اُن کے بقول ان رہنماؤں میں طالبان حکومت کے وزیرِ دفاع ملا محمد یعقوب سرفہرست ہیں جو طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کے صاحبزادے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ "افغانستان سرحد پرپاکستان کے مؤقف کوتسلیم نہیں کرتے جس کی وجہ سے سرحدوں پرکشیدگی کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔"
خیال رہے کہ افغان طالبان اپنی سرزمین سے کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہونے دینے کے عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
افغان طالبان پاکستان کے ساتھ سرحدی معاملات اور مہاجرین کے مسائل بھی بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔
طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے دسمبر میں سرحد پرکشیدگی کے واقعات کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کسی بھی قسم کے ناخوش گوار واقعات کو روکنے کے لیے بھرپورکوششیں کی جا رہی ہیں۔
پیرس میں مقیم افغان صحافی بصیراحمد ہوتک کا کہنا ہے کہ "پاکستان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاک افغان سرحد کے مسئلے پر افغانستان میں بادشاہوں، کمیونسٹ رہنماؤں، مجاہدین، طالبان اور جمہوریت پسندوں کی حکومتیں سب کا مؤقف ایک ہی ہے۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "افغان طالبان سرحد کے معاملے پر افغان عوام کے جذبات کی ترجمانی کر کے اپنے اُوپر سے پاکستان کی پراکسی ہونے کا لیبل ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کہ اس کے ذریعے وہ افغان عوام کو درپیش دیگر سنگین مسائل سے بھی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔"
امریکہ کو بھی پریشانی لاحق
پاکستان، افغانستان سرحد پر کشیدگی اور تشدد کے واقعات میں اضافے پر امریکہ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکی سینٹ کام کے کمانڈر جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے گزشتہ برس دسمبر کے وسط میں اپنے پاکستان کے دورے کے دوران پشاور میں واقع پاک فوج کی الیون کور کا بھی دورہ کیا تھا۔
الیون کور خیبرپختونخوا کے سیکیورٹی معاملات کے ساتھ ساتھ صوبے کی حدود میں قائم پاکستان، افغانستان سرحد کے آدھے حصے کی سیکیورٹی کی ذمے دار بھی ہے۔
سینٹ کام کی جانب سے 16 دسمبر کو جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا تھا کہ جنرل کوریلا نے پاکستان فوج کی الیون کور کے حکام سے ملاقات کی اور بگ بینگ نامی پاک افغان سرحدی پوسٹ کا دورہ بھی کیا اور سرحد پر سیکیورٹی معاملات کا جائزہ لیا۔
پاکستانی انگریزی روزنامہ ڈان کی دو جنوری کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے 2023 کے بجٹ میں پاکستان کے لیے پاک افغان سرحد پرسیکیورٹی کو بہتربنانے کے لیے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔
باڑ کی تنصیب کیسے ہورہی ہے؟
سرحد پر لگائی جانے والی خار دار تاروں سے بنائی گئی باڑ پاکستان کی جانب سے 11 فٹ بلند ہے جب کہ افغانستان کی جانب سے اس کی اونچائی 13 فٹ ہے ۔ ان دونوں باڑوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ ہے جس میں خار دار تاروں کا جال ڈال دیا گیا ہے ۔
خیبرپختونخوا کے ساتھ متصل افغان سرحد کی لمبائی 1229کلومیٹر ہے ۔
صوبے میں سب سے لمبی پاک افغان سرحد ضلع چتر ال کے ساتھ لگتی ہے جس کی لمبائی 493کلومیٹر ہے جس میں سے پھر 471کلومیٹر سرحد انتہائی بلندی پرواقع علاقوں سے گزرتی ہے ۔
دیگراضلاع میں پاک افغان سرحد کی لمبائی دیر میں 39 کلومیٹر، باجوڑ میں 50کلومیٹر، مہمند میں 69کلومیٹر، خیبر میں 111کلومیٹر، کرم میں 191 کلومیٹر، شمالی وزیرستان میں 183کلومیٹراور جنوبی وزیر ستا ن کے ساتھ 94 کلومیٹر ہے ۔
بلوچستان کی حدود میں آنے والی سرحد پر فرنٹیئر کور (ایف سی) نے 2013 میں 11 فٹ گہر ی اور 14 فٹ چوڑی خندقیں ) یا کھائی کھودنے کے منصوبہ پرکام شروع کیا تھا جو 2016 میں مکمل ہو گیاتھا ۔