امریکہ کو ثقافتوں کے ملاپ کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے جو زبانوں کے تنوع میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں گزشتہ چار دہائیوں میں انگریزی کے علاوہ دوسری زبان بھی بولنے والے افراد کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ میں 1980 کی دہائی کے دوران گھر پر انگریزی کے علاوہ دوسری زبان بولنے والے افراد کی تعداد لگ بھگ دو کروڑ 30 لاکھ تھی جس میں اضافہ ہوتا رہا اور 2019 تک یہ تعداد بڑھ کر چھ کروڑ 80 لاکھ ہو گئی ہے۔
امریکہ کے محکمۂ مردم شماری کے مطابق ملک میں ہر پانچ میں سے ایک گھر میں دوسری زبان بولی جاتی ہے۔
ریاست کیلی فورنیا میں مقیم تین بچوں کی والدہ دینا ارید کہتی ہیں کہ یہ اعداد و شمار اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ ایک 'میلٹنگ پاٹ' یعنی ثقافتوں کا گڑھ ہے۔
دینا اپنے گھر میں عربی زبان بولتی ہیں۔ ان کے بقول "یہ اچھی بات ہے کہ یہاں صرف بنیادی طور پر انگریزی زبان نہیں ہے۔ یہاں تارکین وطن کا ایک گروہ ہے۔"
عربی امریکہ میں سب سے زیادہ بولی جانے والی پانچ دوسری زبانوں میں سے ایک ہے۔
دینا کہتی ہیں کہ جیسے انہوں نے اپنےگھر میں بچپن میں عربی سیکھی، ان کے کزنز کو وہ موقع نہیں ملاالبتہ ان کی یہ خواہش تھی کہ ان کے والدین بھی ان سے عربی میں بات کرتے تاکہ انہیں بھی یہ زبان آتی۔
امریکہ میں انگریزی کے بعد ہسپانوی سب سے زیادہ بولی جانے والی دوسری زبان ہے ۔
اس کے بولنے والوں کی تعداد چار کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس طرح ہسپانوی زبان بولنے والے لوگوں کی تعداد دوسری سب سے عام زبانوں کے بولنے والوں سے 12 گنا زیادہ ہے۔
ہسپانیوی نسل کے لوگ امریکہ میں رہنے والی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ جب کہ ہسپانوی بولنے والوں میں55 فی صد امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں۔
ملک میں پانچ سرِفہرست دوسری زبانوں میں چینی، فلپائن سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ٹیگالوگ اور ویتنامی زبانیں شامل ہیں۔
محکمۂ شماری بیورو کے مطابق چینی، ویتنامی، ٹیگالوگ اور عربی بولنے والے لوگ زیادہ تر امریکی شہریت حاصل کرنے والے افراد ہیں جب کہ پہلے سے کہیں زیادہ لوگ گھروں میں انگریزی کے علاوہ دوسری زبان بول رہے ہیں۔
ایسے لوگ جو گھر پر صرف انگریزی بولتے ہیں ان کی تعداد میں بھی 25 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
محکمۂ شماری بیورو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 1980میں گھر پر صرف انگریزی بولنے والوں کی تعداد 18 کروڑ 70 لاکھ تھی جو 2019 میں بڑھ کر 24 کروڑ سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔