اسمبلی کی تحلیل کے بعد پنجاب میں سیاسی گہماگہمی عروج پر ہے۔سیاسی جماعتوں نے اپنے تحادیوں اور امیدواروں کے ساتھ رابطے بڑھا دیے ہیں اور مستقبل کی سیاسی صف بندیوں پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔
نگران وزیرِ اعلیٰ کے لیے چوہدری پرویز الٰہی اپنی اتحادی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی تائید کے ساتھ تین نام تجویز کرچکے ہیں اور دوسری جانب ن لیگ نے بھی نگران حکومت کے قیام کے لیے مشاورت شروع کردی ہے۔
سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر وزیراعظم شہباز شریف لاہور میں قیام پذیر ہیں جنھیں وفاق میں معاشی چیلنجز کے ساتھ پنجاب میں ایک بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ لاہور میں وہ اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے اجلاسوں کی صدارت کر رہے ہیں جن میں آئندہ کی سیاسی حکمتِ عملی زیرِ غور ہے۔اِسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری بھی لاہور میں ہیں اور پیپلز پارٹی کا سیاسی گیم پلان تیار کرنے کے لیے ملاقاتوں، رابطوں اور پارٹی اجلاسوں میں مصروف ہیں۔
زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ تومسلسل سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔ اس طرح پنجاب کی سیاست کی بساط پر ہر کھلاڑی بڑی بازی کی تیاری کررہا ہے لیکن مبصرین کے نزدیک انتخابات سے قبل پرویز الہیٰ کی اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیابی اور پھر اسمبلی کی تحلیل سے مسلم لیگ کو اپنے سیاسی گڑھ میں بڑی سیاسی مات ہوئی ہے۔
’ن لیگ کو صورتِ حال کا درست اندازہ نہیں ہوسکا‘
تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں ہونے والے سیاسی داؤ پیچ میں ن لیگ کو قدرے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی ملک میں عدم موجودگی کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کم وبیش آٹھ ماہ قبل پاکستان مسلم لیگ ن کی ٹکٹوں کی بہت زیادہ ڈیمانڈ تھی۔ اُس وقت جب ملک کی معاشی صورت حال ابتر تھی تو ن لیگ نے حکومت قبول کر کے اپنی سیاست کو داؤ پر لگادیا جس کی وجہ سے ن لیگ نہ صرف دفاعی محاذ پر کھڑی ہے بلکہ اُس کے پاس آئندہ انتخابات میں پیش کرنے کے لیے کوئی سیاسی بیانیہ نہیں ہے۔
کالم نویس اور تجزیہ کار نصرت جاوید کاکہنا ہے کہ پنجاب کی سیاسی صورتِ حال میں ن لیگ سیاسی صورتِ حال کا درست اندازہ نہ لگانے کی وجہ سے پسپا ہورہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ کے پاس اپنے پورے نمبر ہوتے تو صورتِ حال کچھ اور ہوتی۔ وہ اپنا وزیراعلٰی لے آتے لیکن ایسا نہیں تھا۔ اِن کے پاس اپنے نمبر نہیں تھے۔ ن لیگ اِس پر انحصار کر رہی تھی کہ پی ٹی آئی کے لوگ خود ٹوٹ جائیں گے۔ لیکن پانچ کے سوا پی ٹی آئی کے ارکان پارٹی کے ساتھ ہی رہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی درخواست گورنر پنجاب کو موصول ہونے کے بعد 14 جنوری کو پنجاب اسمبلی از خود تحلیل ہوگئی تھی۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش پر دستخط کر کے اِس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
پنجاب اسمبل کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل تھا۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس سب سے زیادہ 178 نشستیں تھیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کی 10نشسیں ملا کر حکومتی اتحاد کی نشستوں کی مجموعی تعداد 188 تھی۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کےپاس پنجاب اسمبلی میں 168 ارکان تھے۔ اِن کے اتحادی پیپلز پارٹی کے پاس سات نشستیں تھیں۔ ن لیگ کو چار آزاد ارکان اور راہِ حق پارٹی کے ایک رکن کی حمایت بھی حاصل رہی۔اس طرح مجموعی طور پر ن لیگ کو 179 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔
سال 2018 کے انتخابات میں صوبائی نشست پر آزاد حیثیت سے منتخب ہوکر سابق وزیرِ داخلہ اور ماضی میں ن لیگ کے سرکردہ رہنما چوہدری نثار نے اسمبلی کا حلف نہیں اٹھایا تھا جس کی وجہ سے یہ نشست اسمبلی کی پوری مدت کے دوران غیر فعال رہی۔
نواز شریف پاکستان میں ہوتے تو۔۔۔؟
سیاسی مبصرین اور مسلم لیگ ن کی قیادت میں ایک حلقے کا خیال ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں پارٹی کے قائد نواز شریف پاکستان میں ہوتے اور براہ راست صورتِ حال کی نگرانی کرتے تھے پنجاب کا سیاسی منظرنامہ مختلف ہوتا۔
صحافی و تجزیہ کار نصرت جاوید اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی بھی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں ن لیگ کو کو ئی خاص سیاسی فائدہ نہیں پہنچا سکتی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر بساط پلٹنے کے لیے عددی برتری درکا ر تھی۔اگر نواز شریف اور مریم نواز ملک میں ہوتے بھی تو پنجاب اسمبلی میں اپنے نمبرز کیسے بڑھاتے؟
اس بارے میں سلمان غنی قدرے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں نواز شریف کی واپسی کے علاوہ ن لیگ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اُن کا سیاسی کیس تھا اور اُن کی مقبولیت تھی۔ ان کے بقول، حقیقی قائد مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتا اور وہ اپنی سیاست کو داؤ پر نہیں لگاتا۔
’الگ الگ انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے‘
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں مریم نواز کی رواں ماہ واپسی کی خبریں گردش میں ہیں۔ تاہم اُن کی جانب سے ابھی تک پاکستان واپس آنے کی کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ان کی ممکنہ وطن واپسی کو پنجاب میں انتخابی میدان کے لیے ن لیگ کی تیاری کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔
تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا تھاکہ پہلے سیاسی اکھاڑا لگے گا پھر لوگ اپنے اپنے اُمیدوار میدان میں اتاریں گے۔ انتخابی مہم ہو گی تو اُس کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے کس سیاسی لیڈر کو کتنی مقبولیت حاصل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات میں اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ہو گا۔ ابھی تک تو انتخابی میدان نہیں سجا لیکن کچھ لوگوں نے ابھی سے نتائج پر گفتگو کرنا شروع کر دی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی وفاقی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو تھوڑا عرصہ کے لیے ٹالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ جس کے باعث بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اصافہ نہیں ہوا۔ اِسی طرح معیشت کچھ بہتر ہو گئی تو اتحادی حکومت پنجاب اور پختونخوا میں انتخابات ہونے دیں گے۔بصورتِ دیگر اتحادی وفاقی حکومت کوشش کرے گی کہ کسی بھی طرح انتخابات کچھ تاخیر سے کرائے جائیں۔
تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول پاکستان میں دو انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔ یعنی یہ نہیں ہوتا نظر آ رہا کہ دو صوبوں اور باقی ملک میں الگ الگ انتخابات ہوں۔ پورے ملک میں وفاق اور صوبوں کے اتنخابات ایک ساتھ ہی ہوں گے۔ اس کے لیے بہتر ہو گا کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر بات کر لیں۔ دو انتخابات کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ رواں برس 30 اپریل تک ملک میں مردم شماری ہونے والی ہے۔ اِسی طرح پنجاب میں پانچ نئے اضلاع کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن کی حلقہ بندیاں ہونے والی ہیں۔ اِسی طرح دیگر وجوہ کی بنا پر تکنیکی اعتبار سے بھی یہ ممکن نظر نہیں آ رہا۔
سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ جب انتخابات ہوں گے تو نئی سیاسی صف بندیاں ضرور ہوں گی۔ جس کے لیے سیاستدانوں نے ایک دوسرے سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ لیکن صورتِ حال اسی وقت واضح ہوگی جب انتخابات کا بگل بجے گا۔