روس نے کہا ہے کہ رواں برس مارچ میں انتظامی اُمور طے کرنے کے بعد پاکستان کو ڈیزل اور پیٹرول کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار روس کے وزیرِ توانائی نے پاکستان اور روس کے جمعے کو اسلام آباد میں ہونے والے بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔
اس دوران دونوں حکومتوں کے درمیان تجارتی روابط کو فروغ دینے کے لیے تین معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے ہیں ۔
کمیشن کے اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیے اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر توانائی مصدق ملک نے کہا کہ "ہم مارچ میں روس سے خام تیل، پیٹرول اور ڈیزل درآمد کرنا شروع کردیں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال پاکستان کو دینے کے لیے روس کے پاس ایل این جی نہیں ہے، پاکستان روس سےاپنی مجموعی ضرورت کا 35فی صد خام تیل درآمد کرنا چاہتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی مشکل صورتِ حال میں پاکستان اور روس کے درمیان ہونے والے معاہدے خوش آئند ہیں اور ان سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات جو ماضی میں سیاسی مصلحتوں کی نظر ہوتے رہے اب وہ کاروباری سطح پر ہوں گے۔
اسلام آباد میں روسی وفد کےدورہ پاکستان کے اختتام پر پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تین معاہدے طے پا گئے ہیں۔پاکستان اور روس کے درمیان کسٹم معاملات میں تعاون سے متعلق معاہدے، پاک روس تجارتی سامان کی کسٹمز ویلیو پر دستاویز اورڈیٹا کے لین دین کے معاہدے پربھی دستخط کیے گئے۔
پاکستان اور روس کے بین الحکومتی کمیشن کے آٹھویں اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق فریقین نے تجارت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پراتفاق کیاہے۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن پراجیکٹ کے جامع انفراسٹرکچرپرغورکرنے پربھی اتفاق کیا گیا ہے جب کہ پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن سے سستی گیس کی فراہمی کے لیے پائیدارانفراسٹرکچربنانے پر غور کیا گیا۔ دونوں ملکوں کا ایئر ٹرانسپورٹ کے شعبے ڈیٹا ایکسچینج اور کسٹمز کے شعبے میں تعاون پر بھی اتفاق کیا گیا۔
مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ پاک روس ایروناٹیکل مصنوعات کی فضائی اہلیت پرکام کرنے کا معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں روس سے متعلق کام کرنے والے محقق اور تجزیہ کار تیمور علی خان کہتے ہیں کہ تیل کی فراہمی کے حوالے سے معاملات طے ہوگئے ہیں ۔لیکن اس کی مقدار کے حوالے سے اب تک دونوں اطراف سے تفصیلات شئیر نہیں کی گئی لیکن کہا جارہا ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کا 35 فی صد تیل روس سے خریدے گا۔
تیمور خان کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں سے پاکستان کو مشکل معاشی صورتِ حال میں مدد ضرور ملے گی لیکن پاکستان خطے میں اپنے دیگر اتحادیوں کی وجہ سے طویل مدتی معاہدے کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ لیکن پھر بھی موجودہ معاہدہ پاکستان کی فوڈ اینڈ انرجی سیکیورٹی کے لیے بہتر ہوگا۔
دیگر معاہدوں کے حوالے سے تیمور خان نے کہا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور روسی حکام کے درمیان کسٹمز کے معاملات کے حوالے پر بات چیت ہوئی ہے، دونوں ممالک براہ راست سفری سہولیات کو بڑھانا چاہتے ہیں اور اس معاہدہ سے ان تمام معاملات میں بہتری ہوگی۔
تیمور خان کا کہنا تھا کہ روس کے ساتھ ہونے والے موجودہ معاہدے پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کے مطابق ہیں جس میں پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ کسی بلاک پالیٹکس میں شامل نہیں ہوگا بلکہ روس،امریکہ، چین اور دیگر تمام ممالک کے ساتھ تعلقات کو بڑھائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ،روس کے ساتھ تعلقات اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا رہا ہے۔اس سے ایک فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات مستحکم ہورہے ہیں اور وہ عارضی بنیادوں پر نہیں بلکہ طویل مدتی کاروباری بنیادوں پر ہوں گے۔
'یہ طے ہونا باقی ہے کہ روسی تیل کی قیمت کیا ہو گی'
توانائی امور کے تجزیہ کار فرحان محمود کہتے ہیں کہ روسی تیل کی فراہمی کے حوالے سے مثبت بات چیت ہوئی ہے، لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ اس تیل کی کیا قیمت ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان عرب ممالک سے جو تیل درآمد کرتا ہے روس سے منگوانے پر فریٹ چارجز تقریباً دگنا ہوں گے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے اس تیل کی قیمت کا معاملہ مزید اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔
فرحان محمود کہتے ہیں کہ اس وقت عرب ممالک سے پاکستان کو عرب لائٹ اور ڈبلیوٹی آئی 80 ڈالر فی بیرل کے حساب سے مل رہا ہے۔ایسے میں اگر پاکستان کو روس سے 60 ڈالر فی بیرل کے حساب سے تیل ملے تو ہی پاکستان کے نقطۂ نظر سے پاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر چند ڈالر کا فرق بہت زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔
گیس کے حوالے سے روس نے فی الحال معذرت کی ہے ، اس وقت پاکستان کی صرف کروڈ آئل کے حوالے سے بات ہورہی ہے۔
پاکستان کی آئل ریفائنریز کی روسی تیل کو صاف کرنے کی صلاحیت کے بارے میں فرحان محمود کا کہنا تھا کہ مختلف کمپنیاں اس وقت کہہ رہی ہیں کہ وہ تیس سے چالیس فی صد روسی تیل کو صاف کرسکتے ہیں لیکن دیکھنا ہوگا کہ وہ آئندہ کیا کرتے ہیں۔
فرحان محمود نے کہا کہ پاکستان کو فی الحال گیس مل نہیں رہی، روس کی طرف سے ایل این جی پاکستان کو کس ریٹ پر ملتی ہے یہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت پاکستان قطر سے 13 ڈالر پر گیس خرید رہا ہے۔اب دیکھنا ہوگا کہ روس کب اور کس قیمت پر ہمیں گیس فراہم کرتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین روس پر اپنا انحصار کم کررہا ہے،اس کے نتیجے میں آئندہ ایک سے دوسال میں صورت حال واضح ہو گی کہ پاکستان روس سے کتنی گیس کس قیمت پر خرید سکتا ہے۔