کئی ماہ سے امریکہ یوکرین کو 'ایم ون ابرامز' ٹینک فراہم کرنے میں پس و پیش کررہا تھا۔لیکن بدھ کو واشنگٹن نے اس بارے میں اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے کئی ماہ سے جاری یوکرین کی اپیلوں کے جواب میں یہ ٹینک فراہم کرنے کی حامی بھرلی۔
امریکی حکام کا یہ اصرار تھا کہ 'ایم ون ابرامز' ٹینکوں کی مرمت اور دیکھ بھال بہت پیچیدہ عمل ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکہ کے مؤقف میں یہ ڈرامائی تبدیلی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران آنے والے شدید بین الاقوامی اور سفارتی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ جس کے بعد نیٹو میں شامل دو بڑے ممالک؛ امریکہ اور جرمنی نے جنگی ٹینکوں کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کردی۔
امریکہ کی جانب سے یوکرین کو 31 ابرامز ٹینک اور جرمنی کے 14 لیپرڈ ٹو ٹینکس یوکرین کو دینے کے اعلان کے بعد مزید ممالک کے لیے بھی یکساں اقدامات کی راہ ہموار ہوگی۔
یہ ٹینک روس کے ساتھ جنگ میں یوکرین کے لیے اہم کیوں ہیں اور بائیڈن حکومت نے ان کی فراہمی کے بارے میں اپنا مؤقف کیوں تبدیل کیا؟ اس بارے میں چند حقائق جاننا ضروری ہیں۔
ابرامز ٹینک میدان جنگ میں اہم کیوں؟
ایم ون ابرامز ٹینک گزشتہ کئی دہائیوں سے میدانِ جنگ میں امریکی حملوں کی صفِ اول میں شامل رہا ہے۔
یہ ٹینک پہلی مرتبہ 1991 میں میدانِ جنگ میں اتارے گئے۔ اس ٹینک میں چار افراد کا عملہ ہوتا ہے۔ اس پر 120 ایم ایم کی توپ نصب ہے۔ جوابی حملوں کو روکنے والے مضبوط بکتر اور ہدف کو نشانہ بنانے والے جدید نظام کے ساتھ یہ ٹینک اپنے 1500 ہارس پاور ٹربائن انجن اور موٹے پہیوں کی وجہ سے 68 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرسکتا ہے۔
سن 1992 میں خلیجی جنگ میں اس ٹینک کو استعمال کرنے والے عملے نے امریکہ کے گورنمنٹ اکاؤنٹبلٹی آفس کو اس کی کار کردگی سے متعلق انٹرویو میں اس کی تعریف کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے دوران اس ٹینک نے دشمن کے حملوں کے خلاف اپنی مضبوطی ثابت کی اور کئی مواقع پر عراق کے ٹی 72ایس ٹینکوں کو براہِ راست حملے کا سامنا کرنے پر بھی اس کے عملے کو معمولی نقصان پہنچا۔
امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملے کے دوران بغداد کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی تھرڈ انفینٹری ڈویژن میں یہ ٹینک شامل کیے تھے۔ اس پیش قدمی کو 'تھنڈر رَن' کا نام دیا گیا تھا۔ اس ٹینک نے عراقی دفاعی لائن کو توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
اپنے طاقتور انجن کی وجہ سے ابرامز ٹینک برفیلے یا دلدلی تقریباً ہر طرح کے خطوں میں بہ آسانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔
امریکہ ٹینک دینے سے انکار کیوں کررہا تھا؟
ابرامز ٹینک کے جیٹ انجن کو چلانے کے لیے سینکڑوں گیلن ایندھن درکار ہوتا ہے۔ ٹینک رکی ہوئی حالت میں ہو یا چل رہا ہو اس کا انجن اوسطاً 4.7 لیٹر فی کلومیٹر ایندھن جلاتا ہے۔
اسٹیون بٹلر کے مطابق اس بھاری مقدار میں ضرورت کی وجہ سے اس ٹینک کی پیش قدمی جاری رکھنے کے لیے بروقت ایندھن کی فراہمی یقینی بنانی پڑتی ہے اور اس کے لیے فیول ٹرک بھی ان کے ساتھ ساتھ چلانے پڑتے ہیں۔
امریکہ کو یہ تشویش تھی کہ ایندھن کی طلب پوری کرنا یوکرین کی فوج کے لیے ڈارؤنا خواب ثابت ہوگی۔ کیوں کہ ابرامز ٹینک تو برف یا کیچڑ کو روندتا ہوا آگے بڑھ سکتا ہے لیکن ایندھن کے ٹرکوں میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ کسی بھی جیٹ انجن کی طرح ابرامز ٹینک کو بھی ہوا کے اخراج کا کھلا راستہ چاہیے ہوتا ہے۔ لیکن کئی مرتبہ ٹینک کے عقب میں انجن سے نکلنے والے دھوئیں یا ہوا کے اخراج کا راستہ مٹی یا گارے وغیرہ سے بند ہوجاتا ہے۔ کئی فوجی اہلکار اس مسئلے کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ گارے مٹی وغیرہ پھسنے کی یہ شکایت یوکرین کے علاقوں میں بھی پیش آسکتی تھی۔
گزشتہ ہفتے پنٹاگان کی ایک بریفنگ میں سیکریٹری برائے ڈیفینس پالیسی کولن کال کا کہنا تھا کہ ابرامز ٹینک بہت پیچیدہ مشین ہے۔ یہ بہت مہنگا ہے، اس کی تربیت بہت مشکل ہے اور اس کی دیکھ بھال اور مرمت بھی آسان نہیں۔ یہ بیک وقت موزوں اور غیر موزوں مشین ہوسکتی ہے۔
ابرامز ٹینک کو استعمال کرنے کے لیے کئی ماہ کی تربیت درکار ہوتی ہے۔یوکرین کے فوجی اہل کاروں کو بھی یہ پیچیدہ مشین چلانا اور اس کے ایندھن وغیرہ کی دیکھ بھال سیکھنے کے لیے کئی ماہ درکار ہوں گے۔
دباؤ کیا تھا؟
امریکہ کی جانب سے ان ٹینکوں کی فراہمی سے جڑی مشکلات سامنے لانے کے باجود سیاسی حقائق اور سفارتی کوششوں کی وجہ سے اسے اپنے مؤقف سے دست بردار ہونا پڑا۔
جرمنی 'لیپرڈ ٹو' ٹینکوں کی فراہمی اور اتحادیوں کو بھی ٹینکوں کی فراہمی کی اجازت دینے پر اس وقت تک آمادہ نہیں تھا جب تک امریکہ نے ابرامز ٹینک دینے کا فیصلہ نہیں کرلیا۔ بنیادی طور پر جرمنی یوکرین کو ٹینکوں کی فراہمی میں پہل کرکے روس کی ناراضی مول لینا نہیں چاہتا تھا۔
امریکہ کا مؤقف یہ تھا کہ جرمن ساختہ 'لیپرڈ ٹو' ٹینک یوکرین کی فوج کے لیے زیادہ موزوں ہیں کیوں کہ انہیں چلانے کی تربیت تیزی اور آسانی کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔
امریکہ کی جانب سے ٹینک فراہم نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تعطل نے دیگر یورپی اتحادیوں کو بھی بے چین کردیا تھا۔ مثلاً پولینڈ یوکرین کو لیپرڈ ٹینک فراہم کرنا چاہتا تھا لیکن جرمنی کی آمادگی کے بغیر ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے زیادہ شدت کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا۔
امریکی اور جرمن حکام ان مذاکرات کے لیے 'شدید' کا لفظ استعمال کیا جن کے نتیجے میں دونوں ہی نے ٹینکوں کی فراہمی سے متعلق اپنے مؤقف میں تبدیلی کی۔
البتہ صدر بائیڈن سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے جرمنی کے دباؤ میں یہ فیصلہ کیا؟ تو ان کا جواب تھا کہ جرمنی نے ہماری رائے کی تبدیلی کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔
اس فیصلے کے لیے صدر بائیڈن اور جرمن چانسلر اولاف شولز کے درمیان اعلیٰ سطح پر بھی گفت و شنید ہوئی جس میں دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدے داران بھی شامل تھے۔
ابرامز ٹینک چلانے کے لیے یوکرین کے اہلکاروں کو تربیت دینے سمیت دیگر امور میں کئی ماہ لگیں گے تاہم امریکی حکام نے واضح نہیں کیا ہے کہ یہ ٹینک کب تک یوکرین پہنچیں گے۔ حکام نے صرف 'کئی ماہ' کا کہا ہے۔ البتہ لیپرڈ ٹو ٹینک قدرے جلدی یوکرین پہنچ جائیں گے۔
اس تحریر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’اےپی‘ سے لی گئی ہیں۔