پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو ایک خط کے ذریعے تاکید کی ہے کہ وہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کریں۔جب کہ حکومتی وزرا یہ کہہ رہے کہ امن و امان اور معاشی صورتِ حال میں انتخابات کرانا ممکن نہیں ہے۔ تاہم قانونی و سیاسی ماہرین کی رائے میںامن و امان کو جواز بنا کر انتخابات کو التوا میں نہیں ڈالا جاسکتا۔
صدر عارف علوی نے اپنے خط میں کہا ہے کہ آئین الیکشن میں تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔لہٰذا 2017 کے الیکشن کمیشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی شیڈول جاری کرے۔
دوسری جانب پنجاب، خیبرپختونخوا سمبلیوں اور ضمنی انتخابات کے لیے وزارتِ دفاع، خزانہ اور عدلیہ نے الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرنے سے معذرت کرلی ہے۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال کے باعث فوج کو انتخابات کے لیے آئندہ چند ماہ تک تعینات نہیں کیا جاسکتا۔
صدر پاکستان کی جانب سے یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا ہے جب وزیرِاعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے بعض وزرا اور عہدیدار ان کی جانب سے مسلسل بیانات آ رہے ہیں کہ ملک میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) جس نے قبل از وقت انتخابات کے لیے اپنی دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی تھی، زور دے رہی ہے کہ آئین کی روح سے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر نہیں کی جاسکتی۔
سابق چیئرمین سینٹ اور آئینی ماہر وسیم سجاد کہتے ہیں کہ یہ آئین کا تقاضا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات ہونے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دو صوبوں میں نگران حکومت ہےجو نامزد حکومت ہے منتخب حکومت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے کہ حکومت منتخب لوگوں کے پاس ہوگی اور نگران حکومت کی مدت میں طوالت کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
وسیم سجاد کہتے ہیں کہ کوئی ایسی ہنگامی صورت جس کا حل ممکن نہ ہو تو ایسے میں انتخابات میں تاخیر کا جواز نکالا جاسکتا ہے لیکن عام حالات میں ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
ان کے بقول یہ جواز مناسب نہیں ہے کہ چوں کہ چند ماہ کے بعد عام انتخابات ہونے ہیں تو دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو التوا میں ڈال دیا جائے۔
دوسری جانب سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں دو صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے عام انتخابات میں تین ماہ کے وقت کا فرق ہے اور ایسے میں حکومت چاہتی ہے کہ یہ انتخابات ایک ساتھ ہوجائیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک وقت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد پر اتفاق رائے چاہ رہی ہے لیکن آئینی اعتبار سے انتخابات میں تاخیر کا جواز نہیں بنتا۔
وہ کہتے ہیں کہ آئینی طور پر صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی اپنی اپنی مدت ہے۔ اصولی طور پر تحلیل ہونے والی اسمبلی کے انتخابات 90 روز میں ہوجانے چاہئیں۔
'سیاسی معاملات عدالت لے جانے کی روش بڑھ رہی ہے'
حکومتی وزراء یہ کہتے رہے ہیں کہ امان و امان اور معاشی صورتِ حال کے باعث صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانا ممکن نہیں اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات بھی رواں سال اکتوبر میں عام انتخابات کے ساتھ کرائے جائیں گے۔
خالد رانجھا کہتے ہیں کہ چوں کہ انتخابات ایک بڑا مرحلہ ہے اور یہ آسان عمل نہیں۔ انتخابات پر بڑی مالی لاگت بھی آتی ہے اور اس وجہ سے بھی یہ سوچ ہے کہ صوبائی اور قومی انتخابات ایک ساتھ ہوں۔
تاہموسیم سجاد کہتے ہیں کہ حکومت انتخابات کو ایک ساتھ کروانا چاہتی ہے لیکن اس کی آئین میں گنجائش موجود نہیں اور حکومت پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں رکھتی اور سادہ قانون سازی سے آئین میں تبدیلی کی نہیں جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک ساتھ یا الگ الگ انتخابات کا حل نہیں نکلتا اور معاملہ طور پکڑتا ہے تو یہ معاملہ عدالت چلا جائے گا اور پھر عدلیہ ہی اس پر فیصلہ دے گی۔
خالد رانجھا کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں سیاسی معاملات کو عدالت میں لے جانے کی روش بڑھ رہی ہے جس نے گورننس کو عدالتوں پر ڈال دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات سیاست دانوں کو ہی حل کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا فورم پارلیمنٹ ہونا چاہیے نہ کہ عدالتیں۔ ان کے بقول اس عمل سے نہ صرف حکومت کمزور ہوتی ہے بلکہ عدلیہ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔