جرمن حکومت ترکیہ اور شام کے زلزلے سے زندہ بچ جانے والے ان بے گھر اور زخمی افراد کے لیے ویزے کی پابندیاں عارضی طور پر نرم کرنا چاہتی ہے جن کے قریبی خاندان جرمنی میں مقیم ہیں ۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے ہفتے کی رات ٹویٹ کیا کہ اس اقدام کا مقصد ضرورت کے وقت لوگوں کی مدد کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم جرمنی میں مقیم ترک یا شامی خاندانوں کے لیے یہ ممکن بنانا چاہتے ہیں کہ وہ آفت زدہ علاقے سے اپنے قریبی رشتہ داروں کو یہاں لا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کے لیے ویزوں کا اجرا تیزی سے ہو گا۔ ان کے قیام کی مدت تین ماہ ہو گی ۔ وہ یہاں پناہ حاصل کر سکیں گے اور طبی علاج کروا سکیں گے ۔ تاہم ویزے کے باقاعدہ طریقہ کار کی تمام شرائط کو معاف نہیں کیا جا رہا ۔
درخواست گزاروں کو ایک مستند پاسپورٹ پیش کرنا ہو گا جو ممکنہ طور پر ان لوگوں کے لیے ایک رکاوٹ بن سکتا ہے جن کے گھر گرنے سے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات ملبے میں دب گئی ہیں۔
جرمنی میں ترک نسل کے لاکھوں افراد آباد ہیں کیونکہ، 60 سال سے زیادہ عرصہ قبل مغربی جرمنی نے ملک کو معاشی طور پر آگے بڑھانے میں مدد کے لیے ترکی اور دوسری جگہوں سے گیسٹ ورکرز بھرتی کیے تھے۔
ابھی حال ہی میں، لاکھوں شامی مہاجرین اپنے ملک میں وحشیانہ خانہ جنگی سے بچنے کے لیے تحفظ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
جرمنی میں ترک اور شامی تارکین وطن امداد جمع کر رہے ہیں عطیات بھیج رہے ہیں اور اپنے آبائی ملکوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں کے لیے فکر مند ہیں۔ کئی روزسے تباہ حال علاقوں سے ان کے قریبی رشتے داروں کی ان ٹیلی فون کالز میں اضافہ ہورہا ہے جو انہیں جرمنی آنے کی اجازت دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔
جرمن حکومت نے کہا کہ وہ عمومی طور پر انتہائی سخت اور بیوروکریٹک ویزے کی شرائط کو جلد آسان کر دے گی اور اس کا مزید کہنا ہے کہ وزارت خارجہ نے پہلے ہی ترکی میں اپنے عملے میں اضافہ کر دیا ہے اور وہاں ویزا کے مراکز میں کارکنوں کی تعداد بھی بڑھا دی گئی ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹ کے مطابق، زلزلہ زدگان جو جرمنی میں پناہ لینا چاہتے ہیں اور تین ماہ کے ویزے کے لیے درخواست دینا چاہتے ہیں، انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ جرمنی میں ان کے قریبی خاندان کے افراد موجود ہیں جن کے پاس جرمن شہریت یا مستقل رہائش کا حق ہے۔
جرمن میزبان خاندان کے فرد کو لازمی طور پر ایک بیان جمع کرانا ہوگا جس میں اس کےپاس آنے والے رشتے دار کے رہنے کے اخراجات برداشت کرنے اور بعد میں اس کی روانگی کا وعدہ کیا جائے گا۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔