گزشتہ ہفتے کے تباہ کن زلزلوں نے ترکیہ اور شام کے رہنماؤں کو سیاسی طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زلزلے کے باعث شام کے دنیا میں تنہا ہو جانے والی حکومت کومعمول پر آنے کا راستہ مل سکتا ہے جب کہ اسی زلزلے نے ترکیہ کے تنقید کی زد میں آئے صدر رجب طیب ایردوان کی ایک بار پھر انتخابی مہم کی کوشش پر سوالیہ نشان اٹھادیا ہے۔
شام میں ایک دہائی سے جاری تنازعے اور بند سرحدوں نے باغیوں کے کنٹرول میں زلزلے سے تباہ شدہ علاقوں میں امداد کی ترسیل کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔
سرحد کی دوسری جانب ترکیہ کو زلزلے کے بعد بین الاقوامی امداد کا بڑا حصہ ملا ہے۔
اس صورت حال میں ناروے کی پناہ گزینوں کی ایک کونسل اور 35 دیگر غیر سرکاری تنظیمیوں نے شام کے متاثرہ علاقوں میں امداد فراہم کرنے میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امداد ی کارروائی کو زلزلے کی تباہ کاری کے مطابق ہونا چاہیے۔ؕ
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے شامی امور کے ماہر چارلس لسٹر کہتے ہیں،"ہمیں اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ اسد حکومت اپنے مفادات کے لیے تباہ کن قدرتی آفت کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔"
وہ شامی حکومت کی اقوام متحدہ سےامداد کی اپیل اور متحدہ عرب امارات، اردن، عراق اور اٹلی سے زلزلے کے بعد امداد کی ترسیل کے حوالے سے بات کر رہے تھے ۔
لیکن انہوں نے شام کی حکومت کے معمول پر لانے کی کوششوں کے تناظر میں اس پر عائد پابندیاں ہٹانے کے خلاف خبردار کیا۔
اطالوی انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل پولیٹیکل سٹڈیز سے بات کرتے ہوئے لسٹر نے کہا کہ شام کی حکومت کی طرف سے زلزلے سے پیدا ہونے والی صورت حال کو استحصال کے لیے استعمال کرنے کا بنیادی نکتہ، پابندیوں میں ریلیف کا مطالبہ ہے۔
لسٹر کے مطابق امریکہ، یورپی یونین، کینیڈا یا برطانیہ کی طرف سے شام کی حکومت پر عائد پابندیوں اور انسانی امداد کی ترسیل کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ 2022 میں اربوں ڈالر کی امداد جو حکومتی علاقوں میں دمشق کے راستے پہنچائی گئی اس میں سے 91 فیصد پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کی جانب سے آئی۔"
لِسٹر نے کہا کہ "شاید ہم حکومت کو معمول پر لانے کے لیے تیز رفتار راستے پر گامزن دکھائی دیتے ہیں، لیکن اس کا دارو مدار اس بات پر ہوگا کہ حکومت کیسے جواب دیتی ہے۔"
اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انحصار اس بات پر ہوگا کہ شام کی حکومت ضدی انداز میں آگے بڑھے گی یا عقلی طور پر حکمت عملی کے ذریعہ مزید امداد کی درخواستوں سے نمٹے گی اور یہ کہ شام کی حکومت ان حکومتوں کے ساتھ کیسے نمٹے گی جو اس کے معمول پر آنے کے خلاف دباؤ ڈالنا جاری رکھیں گی۔
دریں اثنا، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکیہ میں صدر ایردوان کو زلزلے کے بعد حکومتی ردعمل کے باعث تنقید کا سامنا ہے، کیونکہ ملک کے جنوب مغرب میں متاثرہ علاقو٘ں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان کے دوبارہ انتخاب کے امکانات کو متاثر کر رہی ہے۔
پیرس میں فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات میں ترکی اور مشرق وسطیٰ کے پروگرام کی سربراہ ڈوروتھی شمڈ کہتی ہیں کہ ایردوان پہلے ہی قدرے نازک صورتحال سے دو چار تھے کیونکہ گزشتہ سال ہونے والے عوامی جائزوں کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ انتخابات کی دوڑ میں سبقت نہیں رکھتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر کوئی سو چ رہا ہے کہ کیا ان کی پارٹی کی مقبولیت کو زلزلوں کے جواب میں مشکل ردعمل سے نقصان پہنچنے والا ہے۔ خیال رہے کہ ایردوان کی پارٹی مقامی آبادی کے بڑھتے ہوئے غصے کا سب سے پہلا ہدف ہے۔
شمڈ کے مطابق اس بارے میں بحث جاری ہے کہ آیا ایردوان کی حکومت صورتحال سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام ہے یا زلزلوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی حکومت مکمل طور پر بے بس ہو جاتی۔
(وی او اے نیوز)