رسائی کے لنکس

امریکہ میں مردم شماری کیسے ہوتی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ 1790 کا سال تھاجب ساڑھے چھ سو گھڑ سوار امریکہ کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ یہ گھڑ سوار 18 ماہ تک شہروں، دیہات اور دور دراز بستیوں کا سفر کرتے رہے۔ان کے پاس ہاتھ سے بنے نقشے اور کاغذ قلم تھے۔انہوں نے ایک ایک بستی میں جا کر وہاں رہنے والوں کے بارے میں معلومات کو ایک مرتب انداز میں جمع کیا۔

یہ امریکہ کی تاریخ کی پہلی مردم شماری تھی جس کے بعد معلوم ہوا کہ نئی قائم ہونے والی اس ریاست کی کل آبادی 39 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

امریکہ کی آبادی آج 33 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ پہلی مردم شماری کے وقت امریکہ کی صرف 12 ریاستیں تھیں جو آج 50 ہوچکی ہیں۔اس دوران امریکہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ خانہ جنگی، معاشی بحران، عالمی جنگوں اور وباؤں کا سامنا کیا لیکن ہر 10 سال بعد ہونے والی مردم شماری میں تعطل نہیں آیا اور سال 2020 تک امریکہ میں 23 بار مردم شماری ہوچکی ہے۔

تاریخ میں مختلف تہذیبوں اور سلطنتوں میں مردم شماری کا ریکارڈ ملتا ہے۔ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق 3800 قبلِ مسیح میں بابل کے حکمران بھی ہر چھ سے سات برس بعد انسانوں اور مویشیوں کی گنتی کرتے تھے اور اپنی زرعی پیداوار کا تخمینہ لگاتے تھے۔

آج جس خطے میں امریکہ قائم ہے وہاں پر بھی برطانوی، فرانسیسی اور ہسپانوی نوآبادیات میں مردم شماری کی جاتی تھی لیکن عام طور اس کا مقصد محصولات جمع کرنا اور فوج میں بھرتیوں کے لیے دستیاب افرادی قوت کا اندازہ لگانا ہوتا تھا۔

لیکن امریکہ کی مردم شماری کو اس لیے تاریخ کا اہم موڑ قرار دیا جاتا ہے کہ دیگر مقاصد کے ساتھ عوامی نمائندگی اور فیصلہ سازی میں ریاستوں کی شمولیت کو مردم شماری کی بنیاد پراہداف میں شامل کیا گیا۔

سن 1950 میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کا ایک خاندان۔
سن 1950 میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کا ایک خاندان۔

ایک ڈالر میں 50 افراد

امریکہ میں آبادی کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے ادارے 'سینسس بیورو' کا کہنا ہے کہ عام طور پر مردم شماری کو ایک انتظامی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ کے بانیوں نے اس کی مدد سے ملک کے طول و عرض میں ہر بستی اور قریے کو اپنے نمائندوں کے انتخاب اور فیصلہ سازی میں شامل کرنے کا مستقل انتظام کر دیا۔

اسی لیے امریکہ کے آئین کی منظوری کے اگلے ہی برس 1790 میں پہلی مردم شماری کی گئی۔ اس دور میں مردم شماری کی ذمے داری 650 فیڈرل مارشلز نے انجام دی تھی۔ فیڈرل مارشلز وفاقی قوانین نافذ کرنے والی ایک فورس ہے جس کا قیام 1789 میں ہوا تھا۔

اس کام کے لیے معمولی اجرت مقرر کی گئی تھی اور مردم شماری کرنے والوں کو 50 افراد کی تفصیلات اور کوائف جمع کرنے پر ایک ڈالر کا معاوضہ دیا گیا تھا۔

امریکہ میں آئین سازی سے لے کر اہم انتظامی فیصلے کانگریس یعنی قانون ساز ادارے میں زیرِ بحث آتے ہیں۔ الگ الگ تاریخ، جغرافیے اور سیاسی حالات رکھنے والی ریاستوں پر مشتمل اس مملکت میں کانگریس کی مشاورت کو ہر مرحلے پر اہمیت حاصل رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلی مردم شماری کے لیے سوال نامے پر بھی کانگریس میں مختلف تجاویز پر مباحثہ ہوا۔ اس کے بعد چھ سوالوں پر مبنی ایک سوال نامہ جاری کیا گیا جس میں جنس، نسل، گھرانے کے سربراہ سے رشتہ، گھر کے سربراہ کا نام اور اگر غلام ہیں تو ان کی تعداد سے متعلق سوال شامل تھے۔

مردم شماری کی نگرانی تھامس جیفرسن کے ذمے لگائی گئی تھی جو اس وقت وزیرِ خارجہ تھے اور بعد ازاں امریکہ کے تیسرے صدر بھی بنے۔مردم شماری میں سفید فام آبادی کے مردوں اور خواتین، غلام اور آزاد سیاہ فاموں اور امریکہ کے آبائی باشندوں کی الگ الگ گنتی کی گئی۔ اس میں 16 برس کی عمر سے زائد اور کم عمر مردوں کو بھی الگ الگ شمار کیا گیا۔

امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن۔
امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن۔

آج کی طرح پہلی مردم شماری میں چھپا ہوا سوال نامہ نہیں تھا بلکہ اہل کاروں کو کسی بھی سادہ کاغذ پر معلومات جمع کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ کاغذ اور قلم وغیرہ کا انتظام بھی مردم شماری کرنے والوں کو خود کرنا تھا۔ان انتظامات کے ساتھ یہ پہلی مردم شماری لگ بھگ 18 ماہ میں مکمل ہوئی تھی۔

سینسس بیورو کا قیام

سال 1870 تک امریکہ میں مردم شماری مارشلز ہی کے ذریعے کرائی گئی۔ تاہم بڑھتی ہوئی آبادی اور رقبے میں اضافے کے پیشِ ںظر کانگریس نے 1880 میں مردم شماری کے لیے باقاعدہ سینسس آفس قائم کیا۔ یہ سینسس آفس محکمۂ داخلہ کے ماتحت تھا۔1902 میں کانگریس نے قانون سازی کرکے محکمۂ داخلہ کے ماتحت سینسس کے لیے مستقل ادارہ بنانے کی توثیق کردی۔ سن 1913 میں بیورو آف سینسس کو محکمۂ خزانہ کے ماتحت کردیا گیا۔

سینسس بیورو اب باقاعدہ ایک ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس میں چار ہزار سے زائد مستقل عملہ ہے جب کہ مردم شماری کے لیے اسے رضا کار، شمار کنندگان بھرتی کرنے اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا بھی اختیار ہے۔امریکہ کے صدر سینیٹ کی توثیق کے ساتھ سینسس بیورو کا ڈائریکٹر نامزد کرتے ہیں۔

سینسس بیورو مردم شماری کے علاوہ مختلف نوعیت کے100 سے زائد سروے بھی کرتا ہے۔ ان میں امریکہ کا کمیونٹی سروے، اقتصادی سروے، کاروباری پیداوار اور طلب و رسد سے متعلق سروے بھی شامل ہیں۔

گھوڑوں سے سیٹلائٹ تک

امریکہ کی مردم شماری کے قوانین اور اس میں استعمال ہونے والے ذرائع مسلسل ارتقا کے مراحل سے گزرتے رہے ہیں۔پہلی مردم شماری گھڑ سوار فیڈرل مارشلز نے سادہ کاغذوں پر مکمل کی تھی۔ 1890 تک سینسس بیورو نے ایک مشین بنا لی تھی جس میں پنچ کارڈ کے ذریعے سوالوں کے جواب دیے جاتے تھے۔

بیورو ان جوابوں کو جمع کرکے نتائج مرتب کرتا تھا۔ کارڈز کے استعمال کی وجہ سے بہت سا کاغذی ریکارڈ جمع ہوجاتا تھا لیکن یہ اس وقت کا جدید ترین طریقہ تھا۔

سال 1950 تک سینسس بیورو نے مردم شماری کے اعدادوشمار جمع کرنے اور نتائج مرتب کرنے کے لیے کمپیوٹر کا استعمال شروع کردیا تھا۔ اس وقت کمپیوٹر اپنی ابتدائی شکل میں تھا جوسائز میں بھی آج کے کمپیوٹر سے کئی گنا بڑا تھا۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ جدت آتی گئی اور بیورو کے پاس سپر کمپیوٹرز بھی آگئے۔

سن 2010 میں بیورو نے دستی جی پی ایس ڈیوائسز کے ذریعے مردم شماری انجام دی تھی۔ اس سے قبل سینسس ورکر کاغذ پر چھپے نقشوں کی مدد سے رہائشی پتوں کی تصدیق اور پھر معلومات جمع کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے کئی مرتبہ گھروں یا اپارٹمنٹس وغیرہ کو غلطی سے کسی اور کانگریشنل ڈسٹرکٹ یا انتخابی حلقے میں ڈال دیا جاتا تھا۔

جی پی ایس ڈیوائسز کے استعمال سے ایسی غلطیاں بہت کم ہوگئیں۔اس کے علاوہ سینسس بیورو نے خانہ شماری اور آباد علاقوں کے نقشے تیار کرنے کے لیے سیٹلائٹس سے مدد لینے کا بھی آغاز کیا۔

سن 2020 میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران مردم و خانہ شماری ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے لیے بیورو نے پہلی بار آن لائن سوال ناموں کی سہولت فراہم کی۔ مکانات وغیرہ کے پتوں کی تصدیق کے لیے سیٹلائٹ امیجز کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس سے قبل شمار کنندگان کو خود جاکر خانہ شماری یا بے آباد عمارتوں کی تصدیق کرنا پڑتی تھی۔

مردم شماری کی تیاری کیسے ہوتی ہے؟

امریکہ میں ہر 10 سال بعد ہونے والی مردم شماری کی تیاریاں کم از کم دو سال پہلے شروع ہوجاتی ہیں۔پہلے مرحلے میں کانگریس سے مردم شماری کے سوال نامے کی منظوری لی جاتی ہے۔سوال نامہ مردم شماری سے کم از کم دو برس قبل کانگریس کو ارسال کرنا ضروری ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی عملے کی بھرتیاں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔

سینسس بیورو کا مستقل عملہ چار ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ لیکن مردم شماری سے قبل شہریوں کو اس میں شرکت کے لیے آگاہی فراہم کرنے، ڈیجیٹل میپنگ، پتوں کی تصدیق اور سوال نامے پُر کرانے کے لیے عملہ بھرتی کیا جاتا ہے اور ان کی تربیت کی جاتی ہے۔مجموعی طور پر مردم شماری کا عمل مکمل کرنے میں لاکھوں افراد پر مشتمل عملہ حصہ لیتا ہے۔سینسس بیورو کے مطابق 2020 کی مردم شماری اندازاً پانچ لاکھ کےعملے نے مکمل کی تھی۔

مردم شماری کے لیے پہلے پتوں کی تصدیق کی جاتی ہے جسے پاکستان میں خانہ شماری کہا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے مردم شماری کے بلاکس اور نقشوں کی تیاری مکمل کی جاتی ہے۔اگلے مرحلے میں شہریوں کو ڈاک کے ذریعے مردم شماری کے سوال نامے بھجوائے جاتے ہیں۔

یہ سارے فارمز 'سینسس ڈے' تک جمع کرنا لازمی ہوتے ہیں۔ سینسس ڈے اس تاریخ کو کہا جاتا ہے جس تک یہ تعین ہوچکا ہوتا ہے کہ مردم شماری میں کس کی گنتی ہوگی اور کہاں ہوگی۔ امریکہ میں 1930 کے بعد سے ہر مردم شماری کے لیے یکم اپریل سینسس ڈے ہے۔

اس تاریخ تک موصول ہونے والے فارمز جمع کرنے کے بعد مردم شماری کا عملہ گلی گلی اور گھر گھر جا کران لوگوں کی معلومات بھی جمع کرتے ہیں جنہوں نے اپنے کوائف ڈاک کے ذریعے ارسال نہ کیے ہوں۔

اس کے علاوہ سینسس بیورو کسی مستقل پتے پر نہ رہنے والے، بے گھر شہریوں، نرسنگ ہومز کے رہائشیوں، قیدیوں اور دیگر عارضی ٹھکانوں میں رہنے والوں کی گنتی کے لیے بھی الگ انتظام کرتا ہے۔

سوال ناموں میں کیا ہوتا ہے؟

امریکہ میں 1970 سے 2000 تک کے دوران ہونے والی مردم شماری میں مختصر اور طویل سوال ناموں کے جواب دیناہوتے تھے۔ مختصر فارم میں خاندان کے افراد کی تعداد اور عمر، جنس، نسل وغیرہ جیسی بنیادی معلومات فراہم کرنا ہوتی تھیں۔ طویل سوال نامے میں تقریباً 52 سوالات ہوتے تھے۔

سال 2010 کے بعد سے مردم شماری کے لیے 10 سے 12 سوالات پر مبنی ایک مختصر سوال نامہ مختص کیا گیا۔ تفصیلی سوال نامے کو ہر سال ہونے والے کمیونٹی سروے میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ سوال نامہ تمام شہریوں کے بجائے 35 لاکھ شہریوں کو بغیر کسی خاص ترتیب کے ارسال کردیا جاتا ہے۔

سینسس بیورو قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ مردم شماری کے لیے ترتیب دیے گئے سوال نامے کے جوابات کسی حکومتی ادارے، پولیس، ایف بی آئی ، سی آئی اے، ٹیکس اداروں، عدالت یا فوج کو فراہم نہیں کرےگا۔

اس سے مراد یہ ہے کہ مردم شماری کرنے والا بیورو صرف اعداد و شمار ہی حکومت کو فراہم کرتا ہے۔ مردم شماری کے لیے دیے گئے سوال ناموں میں کسی بھی شہری نے اپنی جو بھی ذاتی معلومات فراہم کی ہے، بیورو اسے کسی حکومتی ادارے یا ایجنسی سے شیئر نہیں کر سکتا۔

مردم شماری میں شریک عملے کو باقاعدہ حلف کے تحت پابند کیا جاتا ہے کہ وہ سوال ناموں میں فراہم کی گئی معلومات ظاہر نہیں کریں گے۔

یو ایس کوڈ کے ٹائٹل 13 کے تحت مردم شماری کے سوال نامے کے جواب افشا کرنے یا رازداری کے اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سینسس ورکر کو پانچ سال قید یا ڈھائی لاکھ ڈالر تک کا جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی ہوسکتی ہیں۔

اسی قانون کی وجہ سے مردم شماری کے موقع پر ملک بھر میں فراہم کیے گئے کروڑوں سوال ناموں سے حاصل ہونے والی معلومات سینسس بیورو سے باہر کسی تک نہیں پہنچ پاتیں۔البتہ بیورو یہ معلومات 72 سال تک پوشیدہ رکھنے کا پابند ہے جس کے بعد اس معلومات تک رسائی دے دی جاتی ہے۔

مردم شماری کی لاگت

مجموعی طور پر امریکہ کی پہلی مردم شماری پر لگ بھگ 45 ہزار ڈالر کی لاگت آئی تھی۔ جب کہ 2020 میں ہونے والی مردم شماری پر 15 ارب ڈالر سے زائد صرف ہوئے۔ اس حساب سے ایک گھرانے کی معلومات جمع کرنے پر کم و بیش 100 ڈالر خرچ ہوئے۔

ان اخراجات میں عارضی طور پر مردم شماری کے لیے بھرتی کیے گئے شمارکنندگان کا معاوضہ، ان کی تربیت، سفر، قیام، آگاہی مہم کے لیے اشتہارات، ڈاک سمیت دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔

حلقہ بندیاں

پہلی مردم شماری کے بعد امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں نشستوں کی تعداد 65 سے بڑھا کر 105 کی گئی تھی۔امریکہ میں کانگریس مرکزی قانون ساز ادارہ ہے جو سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان پر مشتمل ہے۔سینیٹ میں تمام ریاستوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہے اور ہر ریاست کے لیے آبادی اور رقبے کی تفریق کے بغیر دو نشستیں رکھی گئی ہیں۔ امریکہ کی سینیٹ میں 50 ریاستوں کے 100 ارکان ہوتے ہیں۔

دوسری جانب ایوانِ نمائندگان میں ریاستوں کو ان کی آبادی کے اعتبار سے نمائندگی دی جاتی ہے۔امریکہ کی ریاستوں اور آبادی کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس ایوان کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا ہے۔لیکن 1929 کے ’پرمننٹ اپورشنمنٹ ایکٹ‘ کے بعد ایوانِ نمائندگان کے لیے 435 ارکان کی حد مقرر کردی گئی ہے۔

امریکہ میں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان دونوں ہی کا انتخاب براہ راست ہوتا ہے۔ ان ارکان کے انتخابی حلقے کو ’کانگریشنل ڈسٹرکٹ‘ کہا جاتا ہے۔

سینیٹ کے لیے چوں کہ آبادی یا رقبے کے بغیر ہر ریاست کے لیے دو نشستیں مختص ہیں اس لیے اس میں حلقہ بندیوں کا مرحلہ اور ہر نشست میں ووٹرز کی تعداد کا معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے۔ البتہ آبادی کم یا زیادہ ہونے سے ریاستوں کی ایوانِ نمائندگان میں نشستیں کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہیں اور اسی طرح کانگریشنل ڈسٹرکٹس یا انتخابی حلقوں کی حدود بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔

حلقہ بندیاں کیسے ہوتی ہیں؟

کانگریس کی نمائندگی کے لیے انتخابی حلقوں کی آبادی کو ہر ممکن حد تک برابر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 2020 کی مردم شماری کے بعد ایوان نمائندگان کی ایک نشست سات لاکھ 61 ہزار 169 افراد کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہر مردم شماری کے بعد اس تعداد میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے جس کے لیے امریکی قوانین میں واضح طریقہ فراہم کردیا گیا ہے۔

سینسس بیورو مردم اور خانہ شماری مکمل کرنے کے بعد نو ماہ میں اس کی رپورٹ مرتب کرکے صدر کو ارسال کردیتا ہے۔ صدر یہ رپورٹ موصول ہونے کے بعد شروع ہونے والے کانگریس کے اجلاس کے دوران ایک ہفتے کے اندر اسے کانگریس کو بھیجنے کا پابند ہوتا ہے۔

ایوانِ نمائندگان کا کلرک (اسمبلی سیکریٹری کے مساوی عہدہ) 15 دن کے اندر یہ رپورٹ ہر ریاست کے گورنر کو ارسال کردیتا ہے۔

اس رپورٹ میں ہر ریاست کی آبادی کے اعتبار سے نشستوں کی تعداد کا تعین کیا جاتا ہے۔ ان نشستوں کا فیصلہ ایک متعین فارمولے کے تحت ہوتا ہے اس لیے یہ کام سینسس بیورو ہی انجام دیتا ہے۔

نشستوں اور آبادی میں کمی یا اضافے کی صورت میں حلقوں کی حدود بھی تبدیل ہوتی ہیں جسے’ری ڈسٹرکٹنگ‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم حلقوں کی حدود میں اس تبدیلی کا اختیار ہر ریاست کے اپنے قانون ساز اداروں کو حاصل ہے۔

ری ڈسٹرکٹنگ اور جیری کا ’گرگٹ‘

سیاسی اور انتخابی مفاد کی بنیاد پر انتخابی حلقہ بندیوں میں رد و بدل کو 'جیری مینڈرنگ' کہا جاتا ہے۔ریاست کے قانون ساز اداروں کے اس اختیار کی بنیاد پر 'جیری مینڈرنگ' سے متعلق تحفظات اور اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

یہ اصطلاح 1812 میں ریاست میساچوسٹس میں ہونے والی ایک قانون سازی کے بعد سامنے آئی تھی۔ اس وقت ریاست کے گورنر ایلبرج جیری نے ڈیموکریٹک ری پبلک پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے سینیٹ کے انتخابی حلقے میں تبدیلی کے ایکٹ کی منظوری دی تھی۔

اس ایکٹ کے تحت متعین کی گئی حدود کے مطابق جب اس حلقے کا نقشہ سامنے آیا تو اس کی عجیب و غریب شکل سیلمینڈر قسم کے گرگٹ سے ملتی جلتی تھی۔ اس پر ایک اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے نقشے سے بننے والی شکل پر طنز کرتے ہوئے اسے ’جیری مینڈر‘ کہا تھا۔ اس کے بعد سے یہ امریکہ میں ایک باقاعدہ اصطلاح بن گئی۔

ریاستی قانون ساز اداروں کو چوں کہ کانگریشنل ڈسٹرکٹس کی حدود متعین کرنے کا اختیار ہوتا ہے جس پر ناقدین کا مؤقف ہے کہ ایوان میں اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعتیں اسے اپنے سیاسی و انتخابی فوائد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

اسی بنیاد پر ریاستی قانون ساز اداروں کے اس اختیار کو 2020 کی مردم شماری سے قبل امریکہ کی سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ریاستوں کا یہ اختیار کسی وفاقی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ اس فیصلے کے بعد ناقدین کاکہنا ہے کہ امریکہ میں سیاسی بنیادوں پر حلقوں کے رد و بدل میں تیزی آئی ہے۔

مردم شماری کیوں اہم ہے؟

اگرچہ مردم شماری کا بنیادی مقصد کانگریس میں نمائندگی کے لیے نشستوں کی درست تقسیم کو یقینی بنانا ہے تاہم یہ انتظامی منصوبہ بندی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اس لیے مردم شماری میں امریکہ میں بسنے والے ہر فرد کو گنا جاتا ہے، چاہے وہ امریکہ کا شہری ہو یا نہ ہو۔

امریکہ کی آبادی کے اعداد و شمار پر تحقیق کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاپولیشن ریفرنس بیورو کے مطابق سیاسی نمائندگی کے ساتھ ساتھ وسائل کی تقسیم کے لیے بھی مردم شماری ضروری ہے۔

مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے امریکہ کی وفاقی حکومت ریاستوں اور مقامی کمیونیٹیز کی صحت، تعلیم، تعمیرات اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کرتی ہے۔ 2015 کے مالی سال کے مطابق مرکز کی جانب سے ریاستوں کو دی گئی یہ رقم 675 ارب ڈالر تھی۔

پاپولیشن بیورو کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے ڈیٹا کے مطابق یہ فنڈز طبی سہولیات، ہائی ویز کی تعمیر، خصوصی تعلیم، نیشنل اسکول لنچ پروگرام وغیرہ جیسے منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت ریاستوں کو دیتی ہے۔

اس کے علاوہ مرکزی اور ریاستی سطح پر حکومت، انتظامی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی سڑکوں، تعلیمی اداروں اور دیگر عوامی فلاح کے منصوبوں اور مستقبل کی ضروریات کا درست اندازہ لگانے کے لیے مردم شماری کے نتائج پر انحصار کرتے ہیں۔

مردم شماری کے اعدادوشمار میں چوں کہ عمر، لسانی و سماجی پس منظر، آمدن اور دیہی و شہری کے اعتبار سے معلومات سامنے آجاتی ہیں۔ اس لیے یہ ڈیٹا آبادی کی بدلتی ضرورتوں کے بارے میں جاننے کے لیے بھی کارآمد ہوتا ہے۔ یہ معلومات سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

پاپولیشن بیورو کے مطابق مردم شماری کے نتائج سے کسی ہنگامی صورتِ حال یا قدرتی آفت کی صورت میں امدادی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں بھی مدد ملتی ہے۔

مردم شماری سے کسی علاقے کی آبادی سےمتعلق ڈیٹا میسر ہونے کی وجہ سے ہنگامی حالات میں یہ متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ کہاں کتنی امداد درکار ہوگی۔ اسی طرح کسی وبا یا بیماری پھیلنے کی صورت میں بھی یہ معلومات کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG