پاکستان میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے۔
حکومتی اتحاد کے کے مطابق عام انتخابات نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم بعض مبصرین اس فیصلے کو حکومت کی جانب سے انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے ابتدا میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا البتہ بعد ازاں عدالت سے رجوع کرکے ان ضمنی انتخابات پر التوا کا حکم حاصل کرلیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے مستعفیٰ ارکان کے استعفے منظور ہونے کے بعد 33 نشستوں پر 16 جب کہ 31 نشستوں پر 19 مارچ کو ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کیا تھا۔
انتخابی امور کے تجزیہ نگار سرور باری کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں حکومتی اتحاد کے ووٹ بینک میں کمی دیکھی گئی ہے اور حزب اختلاف کی جماعت پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں حکمران اتحاد کو لگتا ہے ضمنی انتخابات کے نتائج ان کے حق میں نہیں آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج اگر حکمران اتحاد کے خلاف آتے ہیں تو اس سے ان کا بیانیہ ختم ہوجائے گا جوحکومت کی مقبولیت و ساکھ کے لیے شدید دھچکا ثابت ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے حکمران اتحاد کافی شش و پنج میں مبتلا رہا کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے یا بائیکاٹ کیا جائے کیوں کہ انتخابات میں حصہ لیں تو بھی نقصان ہے اور اگر بائیکاٹ کرتے ہیں تو بھی نقصان ہے۔ لیکن سرور باری کی رائے میں بائیکاٹ کی صورت میں حکمران اتحاد کو لگتا ہے کہ انہیں کم نقصان ہوگا۔
سرور باری کہتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے نتائج یقینی طور پر آنے والے عام انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔ اس بنا پر بھی حکومت نے ان انتخابات میں جانے کا خطرہ مول نہیں لیا کیوں کہ ان کے برخلاف آنے والے نتائج عام انتخابات میں انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
صحافی و تجزیہ کار نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ حکمران اتحاد انتخابات سے گھبرا رہا ہے جس کی واضح دلیل اسلام آباد کے بلدیاتی انتخاب کو آخری وقت میں حکومت کی جانب سے معطل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان حکومت کے انتخابات سے بچنے کی پالیسی کا تسلسل ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حکومتی اتحاد اور حزب اختلاف دونوں ہی اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں کیوں کہ موجودہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں صرف چار مہینے باقی ہیں۔
ان کے بقول فرق صرف یہ ہے کہ حکمران اتحاد نے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جب کہ پی ٹی آئی نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ کے تحریکِ انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے پنجاب کے حلقوں میں ضمنی الیکشن روک دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے تحریک اںصاف کے 32 اراکین قومی اسمبلی کی رکنیت بحال کرنے کے بعد قومی اسمبلی کی ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کا شیڈول معطل کردیا تھا۔
سرور باری کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے اگرچہ ضمنی انتخابات رک گئے ہیں لیکن حکومتی اتحاد کا ان میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ حتمی لگتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہے گی کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آئیں اور اس بنا پر انتخابات کا راستہ روکا جا رہا ہے۔ ان کے بقول 1990 میں جب بےنظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا اور اب بھی 90 کی دہائی کی پالیسی دہرائی جا رہی ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد معلوم نہیں کہ یہ ضمنی انتخابات ہوتے بھی ہیں کہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت جواز پیش کررہی ہے کہ عام انتخابات میں وقت کم رہ گیا ہے تو ان خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب کی بجائے ایک ساتھ عام انتخابات میں جانا چاہیے۔ لیکن اس سے حکومت کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور لوگوں کی دانست میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حکومت مقابلے سے بھاگ رہی ہے۔
ادھر وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک جماعت استعفوں کی منظوری اور کبھی استعفے منظور نہ کرنے کے لیے عدالتوں میں جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے الیکشن لڑنا تھا، ایوان میں ہی آنا تھا تو اسمبلیاں کیوں توڑیں اور استعفے کیوں دیے؟ وہ کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو سمجھ نہیں آرہی کہ عدالت جائیں، اسمبلی جائیں یا الیکشن لڑیں۔