پنجاب پولیس دو روز کی کوششوں کے باوجود توشہ خانہ کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کے عدالتی حکم پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی۔
لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر دو روز تک پولیس اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوتی رہیں جس کے دوران کئی اہلکار اور کارکن زخمی بھی ہوئے۔ تاہم یہ معاملہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا پولیس عمران خان کو گرفتار کرے گی یا صرف عدالتی حکم ان کے حوالے کیا جائے گا؟
واضح رہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عدم پیشی پر عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور عدالت نے عمران خان کو 18 مارچ تک پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ وہ وارنٹ گرفتاری سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ تاہم پولیس کی حالیہ کارروائی کے بعد عوامی حلقوں یہ سوالات موضوعِ بحث ہیں کہ وارنٹ گرفتاری ہوتے کیا ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کا مقدر اب جیل کی سلاخیں ہی ہیں؟ کیا گرفتاری کے بعد عدالت میں پیشی کے بعد عمران خان کو ضمانت مل سکتی ہے؟
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وارنٹ گرفتاری کا مقصد عمران خان کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنانا ہے۔
وکلا کا کہنا ہے کہ عمران خان کے ایسے کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں جس میں عام طور پر صرف سمن کرنے کے بعد کیس چلایا جاتا ہے۔ لیکن عمران خان کے کنڈکٹ اور عدالتوں میں پیش ہونے سے گریز کی وجہ سے ان کے یہ وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق عدالت نے پولیس کو یہ ذمے داری سونپی ہے کہ عمران خان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔
وکلا کا کہنا ہے کہ عمران خان کا کنڈکٹ اگر ایسا ہی رہا اور وہ عدالتوں میں باقاعدگی سے پیش نہ ہوئے تو انہیں اشتہاری قرار دیا جاسکتا ہے جس کے بعد ان کی گرفتاری کے بعد پولیس انہیں حراست میں رکھ سکے گی۔
قومی احتساب بیورو ( نیب) کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کہتے ہیں کہ توشہ خانہ کیس میں مدعی الیکشن کمیشن ہے جس میں پہلے مرحلے میں سمن جاری کر کے ملزم کو بلایا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگر ملزم عدالت میں پیش نہ ہو تو پھر قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کیے جاتے ہیں اور پھر بھی پیش نہ ہونے کی صورت میں ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوتے ہیں۔
عمران شفیق کے مطابق ناقابلِ ضمانت وارنٹ عدالت کی طرف سے انتہائی اقدام ہوتا ہے۔عمران خان کے کیس میں بھی عدالت نے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرکے پولیس کو پابند کیا ہے کہ وہ مخصوص تاریخ پر عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت میں پیش ہونے کے بعد عدالت انہیں کہہ سکتی ہے کہ وہ ضمانت کے کاغذات جمع کروائیں اور دوسری صورت میں دو تین دن تک حراست میں رکھنے کا حکم دے کر آئندہ تاریخ پر ان سے تازہ ضمانت لی جاسکتی ہے کہ وہ آئندہ تاریخ پر لازمی پیش ہوں۔
عمران شفیق کے مطابق توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ کسی تفتیش کے لیے نہیں ہیں بلکہ صرف اور صرف عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کی جانب سے عمران خان کو دیے گئے تمام استثنٰی ختم ہوچکے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی انہیں 13 مارچ کو پیش ہونے کا موقع دیا تھا لیکن عمران خان نے وہ موقع بھی ضائع کردیا۔
'رانا ثناء اللہ کے وارنٹ گرفتاری بھی ہیں، انہیں کیوں گرفتار نہیں کیا جا رہا'
عمران خان کے خلاف مختلف مقدمات میں پیروی کرنے والے وکیل اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں پولیس کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے کہ ایک شخص عدالت میں پیش ہونے کو تیار ہے لیکن اسے زبردستی حراست میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف عدالتی وارنٹ جاری ہونے پر انہیں حراست میں لینے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وزیرداخلہ رانا ثناء االلہ کے خلاف بھی گوجرانوالہ کی عدالت سے وارنٹ جاری ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی نے بھی ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیاہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کوئی سنگین غداری یا بغاوت کا مقدمہ نہیں تھا۔ توشہ خانہ جیسے مقدمات میں عام طور پر گریڈ فور کا کوئی اہلکار وارنٹ پہنچا دیتا ہے لیکن عمران خان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ ان کے بقول ڈی آئی جی رینک کے افسر عمران خان کے پاس وارنٹ کی تعمیل کے لیے پہنچے جنہوں نے امن وامان کا مسئلہ بنایا۔
اظہرصدیق کہتے ہیں کہ عدالت شورٹی بانڈ لیتی ہے اور اس کے بعد کیس چلتا رہتا ہے لیکن زمان پارک میں جو کچھ ہوا اس پر پولیس کے خلاف مقدمات بننے چاہئیں۔
'عمران خان کو اشتہاری بھی قرار دیا جا سکتا ہے'
عمران شفیق کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق اب عمران خان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اور انہیں ہرصورت گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کرنا بنتاہے ۔
ان کے بقول، " اگر عمران خان گرفتار نہیں ہوتے اور وقت ملنے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو انہیں اشتہاری قرار دیا جاسکتا ہے جس کے بعد ان کی جائیدادوں کی ضبطی کا معاملہ بھی شروع ہوسکتا ہے۔"
سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کہتے ہیں اشتہاری قرار دینے کے بعد عمران خان کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں کیوں پولیس کے پاس اشتہاری کو گرفتار کرکے حراست میں رکھنے کا جواز پیدا ہو جائے گا۔
'وارنٹ کا مقصد صرف عدالت میں حاضری یقینی بنانا ہے'
اسلام آباد کے سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عثمان وڑائچ کہتے ہیں کہ ان وارنٹس کا مقصد صرف اور صرف عمران خان کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ ملزم لازمی طور پر عدالت کے سامنے پیش ہو۔ ان وارنٹس کا قطعی طور پر یہ مقصد نہیں ہے کہ کسی بھی ملزم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جائے۔ یہ صرف اور صرف عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لیے ہے۔
عثمان وڑائچ نےعمران خان کی طرف سے اپنے لیٹر ہیڈ پر عدالت میں پیشی سے متعلق تحریری درخواست پر کہا کہ اس کاغذ کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیوں کہ وہ صرف ان کی طرف سے ذاتی حیثیت میں دیا گیا بیان ہے جسے کسی بھی عدالتی کارروائی میں مسترد کیا جاسکتا ہے۔
عثمان وڑائچ نے کہا کہ ضمانت اور وارنٹس کے حوالے سے کسی بھی ملزم کا کنڈکٹ بہت اہم ہوتا ہے، عدالت کسی بھی شخص کو سلاخوں کے پیچھے یا جیل بلاوجہ نہیں بھجوانا چاہتی۔ تمام ایسے کیسز جو قابلِ ضمانت ہوں ان میں عموماً ضمانت دے دی جاتی ہے اور اس کیس میں بھی ایسا ہی ہونا تھا لیکن عمران خان کی عدم پیشی نے صورتِ حال کو آگے بڑھا دیا ہے۔
عمران خان نے سیکیورٹی وجوہات کے جواز بنا کر عدالت میں پیش ہونے سے انکار کیا تھا جسے عدالت مسترد کر چکی ہے۔
عمران خان کا مؤقف ہے کہ ان کے خلاف مختلف عدالتوں میں 82 مقدمات چل رہے ہیں جن میں ان کے وکلا عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں جب کہ ان کی لیگل ٹیم کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف درج تمام کیسز جعلی اور بے بنیاد ہیں۔