بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں منشیات کے استعمال میں حالیہ برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں نوجوانوں کی جانب سے نشے کی حالت میں جرائم کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
مغربی شہر سوپور میں بدھ کو بیٹے کے ہاتھوں ماں کے ہاتھوں قتل کے ایک واقعے کے بعد غم کا ماحول ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
چند ہفتے قبل اسی طرح کا ایک واقعہ بھی پیش آیا تھا جہاں ضلع اننت ناگ میں ایک نوجوان نے اپنی والدہ اور دیگر تین افراد کے سروں پر لاٹھی سے وار کرکے انہیں ہلاک کر دیاتھا۔
دونوں نوجوانوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جرم کا ارتکاب کرتے وقت وہ نشے کی حالت میں تھے۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عبد الوحید خان کا کہنا ہے کہ منشیات کےاستعمال اور جرم کا آپس میں گہراتعلق ہے۔
ان کے بقول نشہ آور اشیا کے استعمال سے اعصابی نظام بری طرح متاثر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں نشہ کرنے والے کی دماغی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے اور وہ صحیح اور غلط میں فرق نہیں کرپاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ نشے کے عادی لوگ منشیات اور دیگر نشہ آور اشیا خریدنے کےلیے پیسے حاصل کرنے کی خاطر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور یوں اس سے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے۔
نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے نیشنل ڈرگ ڈیپنڈنس ٹریٹمنٹ سینٹر کے ذریعے حال ہی میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہے۔ یہ اس کی کُل ایک کروڑ 36 لاکھ آبادی کا سات اعشاریہ 35 فی صد ہے۔
بھارتی کشمیر کی علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے رکن جسٹس (ر) حسنین مسعودی کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارتِ انصاف و تفویضِ اختیارات نے منگل کو نئی دہلی میں پارلیمان کے ایوانِ زیرین یعنی لوک سبھا میں بتایا تھا کہ علاقے میں ایک لاکھ آٹھ ہزار مرد اور سات ہزار خواتین بھنگ کااستعمال کرتی ہیں جب کہ پانچ لاکھ 34 مرد اور آٹھ ہزار خواتین افیون اور ایک لاکھ 60 ہزار مرد اور آٹھ ہزار خواتین مختلف اقسام کی نشہ آور اشیا کے استعمال کے عادی بن گئے ہیں۔
سروے ایک لاکھ 27 ہزار مردوں اور سات ہزار خواتین کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ دم کش ادویات لیتے ہیں اور ان میں بڑی تعداد کوکین اور اعصابی نظام کو متحرک کرنے والی ایمفٹامین قسم کی ادویات اور ہیلو سینوجنز کی کیمیائی مُرکبات استعمال کرنے کے عادی ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کی حکومت کی طرف سے سال 2021 میں جاری کیے گئے اعداد و شمار میں کہا گیا تھا کہ کھپت کے سروے کے مطابق علاقے میں چھ لاکھ افراد منشیات سے متعلق مسائل سے متاثر ہیں ۔
اس سرکاری رپورٹ کے مطابق منشیات کا استعمال کرنے والوں میں 90 فی صد 17سے 33 برس کی عمر کے افراد تھے۔
حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ منشیات کے استعمال کے خطرے نے بھارتی کشمیر کے طول و عرض کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
سرینگر میں پولیس حکام نے بتایا ہے کہ وہ منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر اس کے خلاف مہم میں شدت لائے ہیں اور ان کا کاروبار کرنے والوں کو سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کرنے کے عمل کو وسیع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں تقریباً ایک ہزار سات منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور رواں برس کے پہلے تین ماہ کے دوران ایسے 300 سے زائد افراد کے خلاف نشہ آور ادویات کی غیر قانونی اسمگلنگ کو روکنے سے متعلق ایکٹ اور دوسرے قوانین کے تحت مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے کہا کہ منشیات کے اس کاروبار میں کئی خواتین کو بھی ملوث پایا گیا ہے۔ ان کے بقول ہم نے کئی افراد کے خلاف متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت انہیں جیل بھیجا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1978 سے نافذ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جاسکتا ہے۔
بھارتی کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے حال ہی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت منشیات کے استعمال کو کسی بھی قیمت پر جڑ سے اکھاڑ پھینکے کا عزم رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا تھاکہ ملک بھر میں جاری 'نشہ مکت بھارت ابھیان ' یا نشے سے مبرا بھارت مہم کا حصہ بن کر جموں و کشمیر انتظامیہ نے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات اور آزاد تجزیہ کار بھارت کےز یر انتظام کشمیر میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ علاقے میں کئی دہائیوں سے جاری تشدد اور بدامنی اوربڑھتی ہوئی بےروزگاری اور اس کے نتیجے میں نوجوانوں میں پیدا ہونے والی مایوسی اور محرومیاں بتارہے ہیں۔
تاہم میرواعظ عمر فاروق الزام لگاتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ قوتیں ایک گھناؤنے منصوبے کے تحت ہماری آنے والی نسل کو منشیات کا عادی بنا کر پوری طرح تباہ اور برباد کرنے پر تلی ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے غافل نہیں ہیں کہ بھارتی کشمیر کی نوجوان نسل تیزی کے ساتھ منشیات کے استعمال کی عادی ہو رہی ہے۔
مذہبی قیادت سےمدد طلب
سرینگر میں اپنی رہائش گاہ پر گزشتہ تین برس سے نظر بند سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میرواعظ محمد عمر فاروق نے وائس آف امریکہ کو فون پردیے گئے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ منشیات کی وبا سے بھارتی کشمیر سنگین معاشرتی اور سماجی مسائل سے دوچار ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں آبادی کی اکثریت ذہنی و اعصابی تناؤ سے دوچارہےجس کی وجہ سے ڈپریشن کے کیسز میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے اور اس صورتِ حال سے باہر آنے کے لیے لوگوں میں منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
میرواعظ عمرفاروق نے آئمہ مساجد ، علما اور واعظین سے اپیل کی ہے کہ وہ لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو منشیات سے دور رکھنے کے لیے ایک ہمہ گر مہم چلائیں۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ کشمیر اور اور گولڈن کریسنٹ کے مابین چوں کہ جغرافیائی قربت ہے اس لیے افغانستان سے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے راستے بھارتی کشمیر اور پنجاب میں افیون اور دوسری منشیات کی غیر قانونی نقل و حمل کی جاتی ہے جس نے بھارت کو ایک عمومی پُرخطر اور غیر یقینی صورتِ حال میں مبتلا کر رکھا ہے۔
حکومت کے مطابق بھارت کی سرحدیں چین کے ساتھ بھی ملتی ہیں جو دوا سازی کے شعبے میں ایک سرکردہ ملک ہے اور اس نے بھارت سمیت خلیج بنگال کے سات ممالک کی تنظیم ’بِمسٹیک‘ کے خطے میں دوا سازی اور اسمگلنگ کو بہت ہی پُرخطر بنادیا ہے۔
بھارت کے وزیرِِ داخلہ امیت شاہ نے 24 مارچ کو بنگلور میں ' منشیات کی اسمگلنگ اور قومی سلامتی 'کے موضوع پر منعقدہ ایک علاقائی کانفرنس سے خطاب کے دوران الزام لگایا تھا کہ بیشتر منشیات پاکستان سے بھیجی جاتی ہیں اور یہ ایران سے ہوکر سر ی لنکا اور افریقہ تک جاپہنچتی ہیں اس لیے سمندروں میں حفاظت کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔
البتہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کا اس طرح کی کسی سرگرمی میں کوئی کردار نہیں ہے۔
بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ بارہا یہ الزام لگاچکے ہیں کہ سرحد پار سے گولہ باری رک گئی ہے اور در اندازی کی کوششوں میں بھی کمی آگئی ہے لیکن منشیات کی اسمگلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔
وہ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ کالعدم عسکری تنظیمیں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کشمیر کے مختلف حصوں سامبہ، کٹھوعہ سرحدی پٹی میں ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نشہ آور ادویات گرانے کے لیے ڈرونز کا استعمال کررہی ہیں۔
دوسری جانب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں افیون کی کاشت بھی کی جاتی رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں بالخصوص کشمیر کے جنوبی علاقوں میں اس طرح کی سرگرمی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
پولیس، ایکسائز اور انسدادِ منشیات محکموں نے اگرچہ مل کر افیون اور چرس کی کاشت کے خلاف ایک مہم شروع کررکھی ہے اور آئے دن اس غیر قانونی زمین داری اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
ایک غیر سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ اعدادو شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں منشیات کی مقامی پیداوار کے کاروبار اور استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ کی طرف سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق نارکوٹکس کنٹرول بورڈ نے کشمیر میں 2018 سے لے کر 2022 کے دوران کئی ایکڑ پر پھیلی افیو ن کی کاشت کو تباہ کیا تھا۔