سال 2014 میں بھارت کے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے خلیجی ملکوں سے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے جن ملکوں پر وزیرِ اعظم مودی نے زیادہ توجہ دی ہے ان میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) بھی شامل ہیں۔
اپنی حکومت کے نو سال کے دوران نریندر مودی یو اے ای کا پانچ بار دورہ کر چکے ہیں۔ پانچواں دورہ انھوں نے ہفتے کو فرانس کے دورے سے واپسی پر مکمل کیا ہے۔
انھوں نے ہفتے کو ابو ظہبی میں یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زائدالنہیان سے ملاقات کی اور توانائی، غذائی سلامتی اور دفاع سمیت متعدد امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ دونوں ملک مقامی کرنسی یعنی روپیہ اور درہم میں تجارتی سرگرمیاں شروع کریں گے۔ توقع ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے تجارتی روابط کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے اپنی کرنسیوں میں لین دین سے باہمی تجارت 85 ارب ڈالر سے بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اسے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئے سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2002 کے گجرات فسادات کی وجہ سے خلیجی ملکوں میں نریندر مودی کی ساکھ اچھی نہیں تھی۔ لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے ان ملکوں کے دورے کرکے اور وہاں کے رہنماؤں سے ذاتی تعلقات استوار کرکے اپنا امیج بہتر بنایا ہے جس کا اثر دو طرفہ تعلقات پر بھی نظر آرہا ہے۔
یو اے ای، سعودی عرب، بحرین، مالدیپ اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے نریندر مودی کو اعلیٰ سول اعزاز دیا جا چکا ہے جب کہ ابھی حال ہی میں مصر نے بھی انھیں اپنا اعلیٰ سول اعزاز دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں قربت
مودی نے بحیثیت وزیر اعظم اگست 2015 میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔ وہ 34 برس میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اس سے قبل وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1981 میں امارات کا دورہ کیا تھا۔
مبصرین کے مطابق حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کافی قربت آئی ہے۔ گزشتہ سال جب مودی وہاں پہنچے تو صدر النہیان پروٹوکول توڑ کر ان کا خیرمقدم کرنے کے لیے خود ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
یو اے ای میں بھارت کے سفیر سنجے سدھیر کے مطابق بھارت اور امارات کی باہمی تجارت میں صرف ایک سال میں 19 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ امارات بھارت میں چوتھا بڑاسرمایہ کار ملک ہے۔ اس وقت بھارت میں اس کی سرمایہ کاری کا حجم تین ارب ڈالر ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خلیجی ملکوں سے بھارت کے رشتے تین کلیدی بنیادوں پر قائم ہیں۔ یعنی توانائی، معیشت اور بھارتی تارکین وطن۔
اعداد و شمار کے مطابق یو اے ای کی لگ بھگ ایک کروڑ کی آبادی میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد تقریباً 35 فی صد ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر میں مجموعی طور پر بھارتی تارکین وطن کی تعداد تقریباً 85 لاکھ ہے۔
خلیج ٹائمز دبئی، عرب نیوز اور سعودی گزٹ کے شعبۂ ادارت سے وابستہ رہنے والے سینئر صحافی و تجزیہ کار شاہین نظر کا کہنا ہے کہ عالم اسلام اور بالخصوص خلیجی ملکوں سے بھارت کے رشتے تاریخی نوعیت کے ہیں۔ یہاں کی کوئی بھی حکومت اسے نظرانداز نہیں کر سکتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی جب پہلی بار برسراقتدار آئے تو اپنی حکومت کے پہلے سال میں انھوں نے خلیجی ملکوں پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ لیکن پھر شاید ان کو باہمی رشتوں کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور انھو ں نے ان ملکوں کے دورے کیے اور مختلف شعبوں میں معاہدے کیے۔
ان کے مطابق خلیجی ملکو ں میں سب سے زیادہ غیر ملکی بھارتی ہیں۔ وہ جو ریونیو بھیجتے ہیں اس کا حجم بہت بڑا ہے۔ کوئی بھی حکومت اسے کھونا نہیں چاہے گی۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 21-2020میں بھارت کومجموعی طور پر 83 ارب ڈالر کا غیر ملکی زرمبادلہ حاصل ہوا تھا جس میں متحدہ عرب امارات کا حصہ 18 فی صد اور سعودی عرب کا پانچ فی صد تھا۔ جب کہ کویت کا ڈھائی اور عمان اور قطر کا حصہ ڈیڑھ ڈیڑھ فی صد تھا۔
’بھارتی مسلمانوں کا معاملہ اندرونی ہے‘
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات قابل غور ہے کہ مودی حکومت میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بڑھتے واقعات کے باوجود خلیجی ملکوں سے اس کے رشتے نہ صرف یہ کہ بہتر ہیں بلکہ وہ اور آگے بڑھ رہے ہیں۔
ان کے مطابق جب حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایک رہنما نوپور شرما نے پیغمبر اسلام کے خلاف قابل اعتراض بیان دیا تھا تو خلیجی اور دیگر مسلم ملکوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا اور سفارتی بحران کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے اس بات کو محسوس کیا اور متنازع بیان دینے والی عہدے دار کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس کے بعد سے وہ سیاسی منظرنامے سے غائب ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ کشیدگی ختم ہو گئی اور باہمی تعلقات کی گاڑی پٹری پر آگئی۔
شاہین نظر کہتے ہیں کہ اگر اسلام یا پیغمبرِ اسلام کے خلاف قابل اعتراض بیان دیا جائے تو اس کے خلاف خلیجی ملکوں سے آواز اٹھے گی۔ لیکن مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے ان ملکو ں کے حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیوں کہ ان واقعات کو بھارت اپنا اندرونی معاملہ بتاتا ہے۔
ان کے خیال میں مضبوط تعلقات کی بنیادی وجہ تجارت ہے۔ فریقین اپنے تجارتی مفاد کو دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے تعلق سے مودی سے بھی سخت کوئی حکمراں آجائے تو وہ بھی اسی پالیسی پر چلے گا۔
تجارت میں وسعت
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت اب خلیجی ممالک سے تیل کے علاوہ دیگر شعبوں میں اپنی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس یوکرین جنگ کے بعد متعدد ملک اپنی غذائی ضروریات سے متعلق خاصے فکر مند ہیں۔
ان کے مطابق عالم عرب کو 60 فی صد غذائی سپلائی روس اور یوکرین سے ہوتی ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد خلیجی ملکوں اور بالخصوص متحدہ عرب امارات میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ وہ اپنی غذائی ضروریات کو دیگر ملکوں سے بھی پورا کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
شاہین نظر کے مطابق متحدہ عرب امارات میں زیادہ تیل نہیں ہے۔ کچھ دبئی میں کچھ ابو ظہبی اور کچھ شارجہ میں ہے۔ باقی چار امارات میں تیل نہیں ہے۔ وہاں دوسری اشیا کی تجارت ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دبئی ری ایکسپورٹ سینٹر ہے۔ دوسرے ملکوں سے اشیا تیار ہو کر وہاں جاتی ہیں اور وہاں سے دیگر ملکوں کو سپلائی کی جاتی ہے۔ بھارتی کمپنیاں وہاں بہت بڑی تعداد میں ہیں۔
ان کے بقول دبئی میں سونے کا کاروبار بھارت سے تعلق رکھنے والی سندھی کمیونٹی کے ہاتھ میں ہے۔ ریڈی میڈ گارمنٹ کی پوری تجارت سندھیوں کے ہاتھ میں ہے۔ سپر مارکیٹ چینز کا کاروبار بھی وہی کر رہے ہیں۔
شاہین نظر کے مطابق بھارت سے کپڑا تیار کرکے دبئی بھیجا جاتا ہے جہاں سے دوسرے ملکوں کو سپلائی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں تعلیمی مراکز میں بھارتی برادری کی اکثریت ہے۔
مبصرین کے مطابق عرب امارات تیل پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے۔ وہ پوری دنیا میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش رہا ہے۔ اس کے لیے وہ ’سرکولر اکانومک پالیسی‘ پر کام کر رہا ہے۔ یو اے ای 2031 تک اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو دگنا کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ وہ غذائی تجارت، گرین انفراسٹرکچر اور ریئل اسٹیٹ پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
ان کے مطابق اس کے لیے یو اے ای بھار ت کو ایک قابلِ اعتبار شراکت دار کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ وہ بھارت میں سرمایہ کاری کرنے کا خواہش مند ہے۔ لہٰذا بھارت اور خلیجی ملکوں کے رشتے کو تجارتی آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔