"کیا یہ درخواست غیر موثر نہیں ہو گئی؟" جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے یہ سوال درخواست گزار توفیق آصف سے کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ "اگر میری درخواست چھ سال پہلے لگ جاتی تو آج غیر مؤثر نہ ہوتی۔"
یہ منظر تھا سپریم کورٹ میں ایک سماعت کا جہاں عدالت نے منگل کو سابق صدر پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کی درخواست غیر مؤثر ہونے پر خارج کر دی۔
جسٹس مظاہر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
یہ درخواست سال 2014 میں دائر کی گئی تھی جس کے بعد چند سماعتیں ہوئیں لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا اور اب پرویز مشرف کی وفات کے بعد یہ درخواست ہی غیر مؤثر ہو گئی ہے۔
پرویز مشرف 2016 میں علاج کی غرض سے ملک سے باہر چلے گئے تھے جس کے بعد وہ وطن واپس نہیں آئے تھے۔ دسمبر 2019 میں ایک خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں اُنہیں سزائے موت سنائی تھی جس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔
سابق صدر رواں برس فروری میں طویل علالت کے بعد دبئی کے اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔
توفیق آصف نے عدالت میں کہا کہ ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے، اگر ہماری درخواست چھ سال پہلے لگ جاتی تو غیر مؤثر نہ ہوتی۔ پرویز مشرف باہر گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بس اب اللہ پر چھوڑ دیں۔ اس پر توفیق آصف نے کہا کہ بس اب تو اللہ پر ہی چھوڑ رہے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کوئی کیس اس وقت لگا جب اس کا کوئی ایک فریق دنیا سے ہی رخصت ہو گیا ہو۔
ماضی قریب میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خادم حسین رضوی کے خلاف بھی توہینِ عدالت کا کیس جو 2018 میں دائر کیا گیا تھا اس کی سماعت گزشتہ ماہ اگست میں ہوئی۔
اس کیس میں مدعی بیرسٹر مسرور شاہ بھی دنیا سے رخصت ہو چکے جب کہ فریق خادم رضوی کے انتقال کو بھی دو سال کا عرصہ گزر چکا، یہ درخواست بھی غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دی گئی ہے۔
اسی طرح سانگھڑ میں قتل کے ایک ملزم چیتن کوہلی کو 17 سال بعد قتل کیس میں شواہد کی عدم دستیابی کے باعث بری کر دیا گیا۔ لیکن وہ سترہ سال جیل میں گزار چکا تھے۔
راولپنڈی میں ایک شخص کو اس وقت بری کیا گیا جب اس کو جیل میں ہی بیماری کی وجہ سے وفات پائے تین سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔
پاکستان کی عدالتوں میں زیرِ التوا کیسز اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں۔ حالیہ عرصے میں سیاسی معاملات سے متعلق کیسز کو ترجیح دینے پر بھی بعض حلقے تنقید کرتے رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں جائیداد کے تنازعات سمیت دیگر معاملات میں سالہا سال تک کیسز چلتے ہیں اور ایسے ہزاروں کیسز اب بھی مختلف عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔
رواں سال جولائی میں سپریم کورٹ نے زیرِ التوا کیسز سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق اس وقت زیرِ التوا کیسز کی تعداد 54 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 2013 میں 20 ہزار 148 زیر التوا مقدمات رپورٹ کیے گئے تھے جب کہ اب زیرِ التوا کیسز کی تعداد 54 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
سال 2022 کی لا اینڈ جسٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک کی تمام عدالتوں میں زیرِ التوا کیسز کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں یہ مقدمات ملک کی مختلف سیشن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالتیں، ہائی کورٹس، شریعت کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپنے فیصلوں کے منتطر ہیں۔
عدالتی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی حسنات ملک کہتے ہیں کہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ عام فوج داری کیسز سپریم کورٹ میں دو سے تین سال کے بعد ہی لگتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حسنات ملک کا کہنا تھا کہ وکلا کو بھی جلد سماعت کے لیے درخواست دائر کرنا ہوتی ہے جس میں وجہ بتانی ہوتی ہے کہ جلد کیس کی سماعت کیوں کی جائے۔
حسنات ملک نے کہا کہ ان سب باتوں کے ساتھ اہم معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس مینجمنٹ کا کوئی طریقۂ کار نہیں ہے۔
اُن کے بقول چیف جسٹس کے اختیارات لامتناہی ہیں، اگر وہ چاہیں تو ایک گھنٹہ پہلے دائر ہونے والے کیس کو سماعت کے لیے مقرر کردیں اور اگر چاہیں تو دس سال تک کوئی سماعت کے لیے مقرر نہ ہو۔
حسنات ملک کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی پالیسی نہیں ہے، جو پالیسی ہے وہ بھی آج تک نوٹیفائی نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ کے رولز کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
حسنات ملک نے کہا کہ ججز کے انتخاب کے لیے بھی ترجیحات ہوتی ہیں، کیس مینجمنٹ کے لیے آج تک ججز کی فل کورٹ میٹنگ نہیں بلائی گئی۔
'یہ نظامِ انصاف کے لیے لمحۂ فکریہ ہے'
سینئر ماہر قانون عمران شفیق ایڈووکیٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے کیس کئی برسوں کے بعد لگنے کے معاملہ پر کہا کہ یہ کیس پاکستان کے نظام انصاف کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ یہ نظامِ انصاف کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک کیس اس وقت سنا گیا جب اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس وقت کی عدلیہ نے اس حساس نوعیت کے کیس کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور جس شخص پر آئین توڑنے کا الزام تھا وہ ملک سے باہر چلا گیا۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں سپریم کورٹ سب سے بڑی عدالت ہے جس کے ایک حکم پر سب پیش ہو جاتے ہیں، لہذٰا یہاں بڑی تعداد میں کیسز کا زیرِ التوا رہنا تشویش کی بات ہے۔
فورم