حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم نے جمعہ کے روز کہا کہ ان کی تنظیم پراسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعہ میں ، لڑائی سے الگ رہنے کے مطالبات کا کوئی اثرنہیں ہوگا، اوربقول ان کےگروپ "مکمل طور پر تیار" ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انہوں نے جنوبی بیروت کے مضافاتی علاقے میں ایک ریلی کے لیے جمع ہونے والے حامیوں کو بتایا کہ مبینہ طور پر " بڑی طاقتوں، عرب ممالک اور اقوام متحدہ کے سفیروں کی جانب سےان پس پردہ مطالبات کا جن میں ہم سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر مداخلت نہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے،ہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔"
نعیم قاسم نے کہا، "حزب اللہ اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہے۔ ہم تیار ہیں، پوری طرح تیار ہیں۔"
قاسم نے کہا، 2006 میں ایک ماہ طویل جنگ لڑنے کے بعد، حالیہ ہلاکت خیز تصادم میں گزشتہ ہفتے اس گروپ کی پہلے ہی کئی بار لبنانی سرحد کے پار اسرائیل کے ساتھ جھڑہیں ہو چکی ہیں۔
خیال رہے کہ 2006 میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان 34 روز تک جاری رہنے والی جنگ میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
سرحد پار سے راکٹ فائر اور گولہ باری، فلسطینی دھڑے حماس کی طرف سے اسرائیلی قصبوں کے خلاف حملوں اور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جوابی بمباری کے بعد ہوئی تھی۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ نے ،جسے امریکہ اور بہت سے دیگر ملکوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے،اب تک اپنے حربوں کو ایک محدود دائرہ کار کے لیے ڈیزائن کیا ہے، جس سے اسرائیلی فوجوں کو مصروف رکھتے ہوئے لبنان میں لڑائی کے کسی بڑے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم نے کہا،"جو سوال پوچھا جا رہا ہے، جس کا سب کو انتظار ہے، وہ یہ ہے کہ حزب اللہ کیا کرے گی اور (تنا زعے میں)اس کا کیاحصہ کیا ہو گا؟"
قاسم نے کہا۔ "ہم اپنے منصوبے کے مطابق لڑائی میں حصہ لیں گے...اور جب کسی کارروائی کا وقت آئے گا، ہم اسے انجام دیں گے۔"
حزب اللہ کے نائب سربراہ نے ایک ریلی سے خطاب کیا جہاں سیکڑوں افراد فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے تھے، اور وہاں فلسطینی اور حزب اللہ کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔
دیگر ریلیاں فلسطینی کیمپوں کے ساتھ ساتھ جنوبی اور مشرقی لبنان کے دیگر شہروں میں بھی منعقد کی گئیں جہاں حزب اللہ کی مستحکم موجودگی ہے۔
اس خوف سے کہ کوئی الگ ہونے والا گروہ سرحد پار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، لبنانی فوج نے جنوب میں یونٹس تعینات کر دیے۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے جمعہ کی صبح ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان سے اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع پر بات چیت کی۔
حسین امیر عبداللہیان کی 2021 میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے نامزدگی کے وقت، خبر رساں ادارے رائٹرز نے بتایا تھا کہ ان کے ایرانی پاسداران انقلاب کے ساتھ قریبی روابط ہیں، جبکہ لبنان کی طاقتورتحریک حزب اللہ اور مشرق وسطیٰ میں لڑی جانے والی پراکسی لڑائیوں کے معاملات سے مبینہ طور پر ان کا قریبی تعلق ہے۔
امیرعبداللہیان نے جمعرات کو کہا کہ خطے میں ایران کے اتحادی ،فلسطینیوں کے خلاف بقول ان کےاسرائیلی "جرائم" کا جواب دیں گے اور اسرائیل کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ایران کی پشت پناہی کی حامل شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کا لبنان میں سیاست، فوج اور سماجی سرگرمیوں سے گہرا تعلق ہے اور وہ لبنان میں ایک بڑی سیاسی اور عسکری قوت ہے۔ 1992 سے اس کی قیادت حسن نصر اللہ کر رہے ہیں۔
حزب اللہ ملیشیا لبنان کی فوج سے زیادہ طاقتور ہے اور اس نے خطے میں شام سمیت ایران کے اتحادیوں کی مدد کی ہے۔ گروپ اور اس کے اتحادیوں کا لبنان کی ریاستی پالیسیوں پر بھی وسیع ا اثر ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ موادرائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم