اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے غزہ کی مجموعی سیکیورٹی کی ذمہ داری غیر معینہ مدت تک اسرائیل کے پاس ہونے سے متعلق دیے گئے اپنے بیان کی اب تک کوئی وضاحت نہیں کی۔ البتہ ماضی کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے سیکیورٹی کے حوالے سے کسی بھی قسم کے کردار کو فلسطینی اور بیشتر بین الاقوامی برادری فوجی قبضے کے طور پر دیکھتی ہے۔
نیتن یاہو نے حال ہی میں امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں غزہ میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھنے کا اشارہ دیا تھا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ اسرائیل خود کو ایک ایسے دلدل میں لے جائے گا جس میں اپنے حریف کے خاتمے کے لیے وہ مستقل حالتِ جنگ میں رہ سکتا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی مستقل موجودگی سے کسی بھی ایسے منصوبے کے حوالے سے صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے جس میں غزہ کا انتظام فلسطینی اتھارٹی یا کسی دوست عرب ملک کے حوالے کیا جائے۔
یہاں تک کہ اگر اسرائیل حماس کے غزہ پر 16 برس سے قائم اقتدار کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس کی بیشتر عسکری تنصیبات کا خاتمہ کر بھی دیتا ہے۔ تو اس کی افواج کی غزہ میں موجودگی سے ممکنہ طور پر شورش جنم لے سکتی ہے جس طرح 1967 سے 2005 کے درمیان اسرائیلی فورسز کی موجودگی کے دوران ہوا تھا۔ اس عرصے میں دو بار شورش نے جنم لیا جب کہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں حماس قائم ہوئی اور اسے مقبولیت بھی ملی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اسرائیل کی تین رکنی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینز نے بدھ کو تسلیم کیا کہ اب تک غزہ کے حوالے سے کوئی طویل المدتی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ ان کے بقول کسی بھی منصوبے پر اسرائیل کی سیکیورٹی کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے غور کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کوئی بھی طریقۂ کار پیش کر سکتے ہیں جو ہمارے خیال میں مناسب ہو۔ البتہ حماس اس کا حصہ نہیں ہو گی۔
یہاں چند ایسے طریقوں کو زیرِ بحث لایا جا رہا ہے جو ممکنہ طور پر غزہ میں اسرائیل کےسیکیورٹی کردار کو واضح کر سکتے ہیں
1۔مکمل قبضہ
مشرقِ وسطیٰ میں 1967 میں لڑی گئی جنگ میں اسرائیل غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قابض ہو گیا تھا۔ یہی وہ علاقے تھے جہاں فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے قیام کے خواہش مند تھے۔ مگر مشرقی یروشلم کا، جہاں پرانا شہر آباد ہےاور حساس مذہبی مقامات ہیں، اسرائیل سے الحاق کر دیا گیا جب کہ اسرائیلی فوج دہائیوں تک مغربی کنارے اور غزہ کا انتظام چلاتی رہی اور لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ البتہ اسرائیل کے الحاق کے اقدامات کو بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا۔
لگ بھگ دو دہائیوں کے فوجی انتظام کے بعد 1980 کی دہائی میں پہلی بار فلسطینیوں کی شورش کا آغاز ہوا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب حماس پہلی بار ایک اسلامی اور سیاسی تحریک کے طور پر سامنے آئی تھی جس کا ایک عسکری ونگ بھی تھا۔
حماس نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جد وجہد میں سیکیولر تنظیم فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی قیادت کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔
2۔مغربی کنارے کا ماڈل
اسرائیل اور فلسطینیوں کی تنظیم پی ایل او کے درمیان عبوری امن معاہدہ 1990 کی دہائی کے وسط میں ہوا جس کو ’اوسلو معاہدے‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور مغربی کنارے اور غزہ پر ایک خود مختار انتظامیہ برسرِ اقتدار آئی جس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔
امریکہ کے کئی صدور نے امن کی جانب پیش رفت کی کوشش کی لیکن ان میں کامیابی نہ مل سکی۔ بعد ازاں 2007 میں فلسطینی اتھارٹی غزہ پر اپنا کنٹرول بھی برقرار نہ رکھ رسکی اور وہاں حماس برسرِ اقتدار آ گئی۔
اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا دائرہ اختیار مغربی کنارے کے صرف اس 40 فی صد علاقے تک محدود ہو گیا تھا جس پر اسرائیل قابض ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے زیادہ تر اختیارات انتظامی نوعیت کے ہیں۔ اس کے پاس اگرچہ پولیس فورس تو موجود ہے لیکن سیکیورٹی کا عمومی انتظام اسرائیلی فورسز سنبھالتی ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس زیادہ تر فلسطینیوں میں انتہائی غیر مقبول قرار دیے جاتے ہیں اور اس کی وجہ ان کی فورسز کی سیکیورٹی امور پر اسرائیل کے ساتھ معاونت کو قرار دیا جاتا ہے اور کئی فلسطینی شہری محمود عباس اتھارٹی کو کبھی نہ ختم ہونے والے قبضہ فورسز کے کنٹریکٹر کے طور پر دیکھتے ہیں ۔
اسرائیل مغربی کنارے میں مستقل ہزاروں فوجی اہلکار تعینات رکھتا ہے۔ یہ سیکیورٹی فورسز یہاں نہ صرف پانچ لاکھ یہودی آباد کاروں کے تحفظ پر مامور ہیں بلکہ ان کے اہلکار رات کے اوقات میں چھاپہ مار کارروائیاں بھی کرتے ہیں جو عسکریت پسندوں کے ساتھ خون ریز جھڑپوں میں بھی بدل جاتی ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے حالیہ دنوں میں یہ بیان دیا تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد فلسطینی اتھارٹی غزہ میں واپس آ سکتی ہے۔
اس اقدام سے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی قانونی حیثیت فلسطینی لوگوں کے سامنے مزید کھل جائے گی اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہوگا جب ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں ہو رہے ہوں گے۔
دوسری جانب غزہ کے کنٹرول کے حوالے سے اُن عرب رہنماؤں کو بھی ردِ عمل کا سامنا ہو سکتا ہے جن کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
3۔غزہ ماڈل
کیا غزہ میں ایک معتدل انتظامیہ کی موجودگی میں سرحد کے اس پار رہ کر غزہ کی سیکیورٹی کے امور کو انجام دیا جا سکتا ہے؟ اور ضرورت پڑنے پر اورجب اسرائیل چاہے تو مداخلت بھی کر سکے؟
اس طرح کا طریقۂ کار پہلے بھی آزمایا چکا ہے جب 2005 میں فلسطینیوں کی دوسری شورش کا آغاز ہوا، جو کہ پہلے والی کے مقابلے میں زیادہ پر تشدد تھی، تو اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج اور لگ بھگ آٹھ ہزار آباد کاروں کا انخلا کرا لیا تھا۔
اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ لیکن اس کی فضائی حدود، ساحلی پٹی اور ایک کے سوا تمام زمینی سرحدی گزر گاہوں پر اسرائیل کا کنٹرول تھا۔
اس کے اگلے برس فلسطینیوں کے علاقوں میں انتخابات ہوئے اور غزہ میں حماس نےکامیابی حاصل کر لی۔ البتہ بین الاقوامی برادری نے حماس کا بائیکاٹ کر دیا جس سے غزہ کو شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان جاری تنازع 2007 میں اس وقت بے قابو ہو گیا تھا جب حماس نے محمود عباس کی حامی فورسز پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ اس دوران ان کے درمیان تصادم بھی ہوئے۔
اس کے بعد غزہ کے پڑوس میں واقع مصر اور اسرائیل نے اس ساحلی پٹی کا محاصر کر لیا تھا۔ غزہ سے لوگوں کے سفر اور تجارت پر شدید پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں جب کہ اسرائیل ان پابندیوں کی وجہ حماس کو قابو کرنے کے اقدامات قرار دیتا رہا۔
فلسطینی عوام اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان پابندیوں کو اجتماعی سزا سے تعبیر کرتی رہی ہیں۔ یہ پابندیاں اس انتہائی گنجان آباد ساحلی پٹی کے لوگوں کے لیے شدید مشکلات اور مصیبتوں کا سبب رہی ہیں۔
امریکہ، اسرائیل اور بیشتر مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
حماس نے اسرائیل کے قیام کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور حماس یہ عزم ظاہر کرتی رہی ہے کہ وہ مسلح جدوجہد سے اسرائیل کا خاتمہ کر دے گی۔
مغربی کنارہ فلسطینی اتھارٹی کے پاس اور غزہ کی پٹی حماس کے کنٹرول میں۔اس انتظام کے دوران حماس کے غزہ میں 16 برس کے اقتدار میں اس کی اسرائیل سے چار جنگیں ہوئیں۔ ان میں دو بار لڑائی غیر اعلانیہ جنگ بندی کی صورت میں ختم ہوئی۔ لیکن اس کے بدلے میں اسرائیل نے غزہ کے محاصرے میں نرمی کی جب کہ حماس نے اسرائیل پر راکٹ حملے بند کیے جب کہ غزہ کی دیگر شدت پسند عسکری تنظیموں کو بھی اسرائیل کے خلاف کارروائیوں سے باز رکھا۔
اسرائیل کے لیے غزہ کی سیکیورٹی کا یہ ماڈل زیادہ پسندیدہ تو نہیں تھا۔ لیکن اسے دیگر کے مقابلے میں بہتر ضرور سمجھا گیا۔ اس دوران کئی برس کا دورانیہ انتہائی سکون سے بھی گزرا ہے۔
4۔لبنان ماڈل
فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل نے دو بار 1978 اور پھر 1982 میں لبنان کے جنوبی علاقوں میں دخل اندازی کی تھی۔اس دوران اسرائیل کی ایک مقامی حامی ’ساؤتھ لبنان آرمی‘ کی مدد سے 18 برس ان علاقوں پر قبضہ برقرار رکھا گیا۔ ساؤتھ لبنان آرمی کو اسرائیل سے تربیت اور اسلحہ ملتا تھا۔
لبنان میں 1982 میں ایک عسکری گروہ ’حزب اللہ‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس عسکری گروہ کی پشت پناہی ایران کر رہا تھا جب کہ اس کا مقصد لبنان سے اسرائیلی فوج کو باہر دھکیلنا تھا۔
حزب اللہ نے ساؤتھ لبنان آرمی اور اسرائیلی فورسز پر حملے کرنا شروع کیے۔ان کارروائیوں کے سبب اسرائیل دو دہائیوں قبل 2000 میں اپنی افواج لبنان سے نکالنے پر مجبور ہوا۔
ساؤتھ لبنان آرمی کا بھی فوجی طور پر خاتمہ ہو ا جس سے ایک خلا پیدا ہوا اور اس خلا کو عسکری تنظیم حزب اللہ نے پُر کیا۔
حزب اللہ کی اسرائیل سے 2006 میں لگ بھگ ایک ماہ تک جنگ ہوئی جو بعد ازاں ایک سمجھوتے کے نتیجے میں ختم ہوئی۔آج حزب اللہ لبنان کی ایک انتہائی طاقت ور عسکری تنظیم ہے جس کے بارے میں اسرائیل کا خیال ہے کہ حزب اللہ کے پاس لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ میزائل اور راکٹس کا ذخیرہ موجود ہے۔
کوئی اور راستہ؟
اسرائیل غزہ سے متعلق منصوبوں کے حوالے سے متضاد پیغامات دیتا رہا ہے۔اسرائیلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر قابض نہیں ہونا چاہتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی فورسز شدید لڑائی کے بعد غزہ میں آزادانہ نقل و حرکت چاہتی ہیں۔
اسرائیل کی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینز نے بدھ کو کہا تھا کہ آپریشن کی طوالت سے متعلق جہاں تک سوال ہے تو اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔
ان کے اس بیان سے یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فورسز غزہ کے اندر تعینات ہوں گی جب کہ اس کی سرحد پر بھی فوجی موجود ہوں گے۔
بعض حکام میں یہ بحث بھی ہوئی ہے کہ فلسطینیوں کو سرحد سے دور رکھنے کے لیے ایک بفرزون بنایا جائے۔ البتہ امریکہ سمیت دیگر نے غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی واپسی پر زور دیا ہے۔
اس تحریر میں معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔