خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں سیکیورٹی اداروں کے زیرِ استعمال ایک عمارت پر عسکریت پسندوں کے حملے میں 23 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جب کہ فورسز نے مختلف کارروائیوں میں 27 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب چھ دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر حملہ کر کے وہاں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا۔ بعد ازں دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی کو کیمپ کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دیا اور اس کے بعد خود کش دھماکہ بھی کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دھماکے سے عمارت منہدم ہو گئی جس کے نتیجے میں 23 سیکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ جوابی کارروائی میں چھ دہشت گرد مارے گئے۔
تحریکِ جہاد نامی ایک غیر معروف عسکریت پسند گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔
مقامی آبادی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق علاقے میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر ڈی آئی خان میں درازندہ میں ایک آپریشن کیا جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر کے 17 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی فورسز نے ایک اور کارروائی میں کلاچی کے علاقے میں چار دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جب کہ اس واقعے میں دو سپاہی بھی ہلاک ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق مارے گئے دہشت گرد فورسز پر حملوں اور شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔ بیان میں کہا گیا کہ ان کارروائیوں میں اسلحہ، گولہ بارود اور دیگر دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ قریبی علاقوں ٹانک، لکی مروت اور کلاچی میں سیکیورٹی فورسز مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف گزشتہ ایک ہفتے سے کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے متعدد واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن ماضی کے برعکس دہشت گرد حملوں کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بجائے مختلف ناموں سے موجود چھوٹے گروپس قبول کر رہے ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں میں لشکر خراسان، تحریک جہاد پاکستان کے علاوہ عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کا گروپ بھی شامل ہے۔
گزشتہ ماہ دہشت گردی کے واقعات میں 34 فی صد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر دہشت گردی کے 63 واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 37 اہلکار ہلاک ہوئے۔
دوسری جانب پاکستان کی فوج اور حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں غیر ملکی ملوث ہیں۔ حکومت کی جانب سے افغان شہریوں کو بھی تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم افغانستان میں طالبان کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔