|
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے امید ظاہر کی ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی اگلے ہفتے کے اوائل میں نافذ العمل ہو سکتی ہے۔
نیو یارک میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد بائیڈن نے ایک سوال کے جواب میں عندیہ دیا کہ جنگ بندی اس ہفتے کے اختتام سے اگلے ہفتے کے آغاز کے دوران کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ فریقین کے درمیان معاہدے کے تحت لڑائی میں وقفہ ہو گا اور یرغمالوں کی رہائی بھی ممکن ہو سکے گی۔
انہوں نے کہا، "میرے قومی سلامتی کے مشیر نے مجھے بتایا کہ ہم قریب ہیں۔ ہمارا کام ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگلے پیر تک ہم جنگ بندی کر لیں گے۔"
بائیڈن کا یہ تبصرہ این بی سی پروگرام "لیٹ نائٹ ود سیٹھ میئرز" کی نیو یارک میں ریکارڈنگ کے بعد سامنے آیا ہے۔
جنگ بندی میں کیا شامل ہو گا؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ہفتے کی جنگ بندی کے لیے بات چیت اس وقت جاری ہے تاکہ غزہ میں عسکریت پسند گروپ کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے لوگوں کی رہائی کی اجازت دی جا سکے جس کے بدلے میں اسرائیل سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق لڑائی میں چھ ہفتوں کے مجوزہ وقفے میں روزانہ سینکڑوں ٹرکوں کو غزہ میں اشد ضروری امداد پہنچانے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔
مذاکرات کاروں کو 10 مارچ کے آس پاس مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے آغاز کی ایک غیر سرکاری ڈیڈ لائن کا سامنا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ سال کے اس وقت اکثر اسرائیل اور فلسطینی لوگوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسرائیل عالمی عدالت کے مطابق فلسطینیوں کو امداد دینے میں ناکام
انسانی حقوق کی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں مایوس لوگوں کو فوری طور پر درکار امداد فراہم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ہیگ میں کام کرنے والی عدالت نے ایک ماہ قبل ایک تاریخی فیصلے میں اسرائیل کو جنگ میں اعتدال پسندی اپنانے کا حکم دیا تھا۔
اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگانے والے ملک جنوبی افریقہ کی درخواست کے ابتدائی جواب میں، اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے چھوٹے سے علاقے میں موت، تباہی اور نسل کشی کی کسی بھی کارروائی کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔
تاہم عدالت نے اسرائیل کو فوجی کارروائی ختم کرنے کا واضح حکم نہیں دیا تھا۔
یاد رہے کہ اسرائیل کی غزہ میں عسکری کارروائیوں نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے۔
اسرائیل کا مؤقف
اسرائیل نے اپنے خلاف لگائے گئے نسل کشی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کارروائی کر رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے مصر کے ساتھ سرحد کے ساتھ واقع غزہ کے جنوبی قصبے رفح میں اپنی زمینی کارروائی کو وسعت دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
رفح میں پناہ لینے والے 14 لاکھ فلسطینی اسرائیل کے نئے حملے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔
رفح پر حملے کی تیاریاں اور عالمی تشویش
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامیں نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ بندی محض اسرائیل کے رفح میں آپریشن کو مؤخر کرے گی۔
پیر کو نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ فوج نے جنگی کابینہ کو رفح کے لیے اپنا آپریشنل پلان پیش کیا ہے اور ساتھ ہی جنگ کے علاقوں سے شہریوں کو نکالنے کے منصوبے بھی پیش کیے ہیں۔ البتہ، دفتر نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
رفح کی صورتِ حال نے عالمی تشویش کو جنم دیا ہے۔ اسرائیل کے اتحادیوں نے خبردار کیا ہے کہ اسے حماس کے عسکریت پسند گروپ کے خلاف جنگ میں شہریوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔
پیر کے روز ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ فلسطینی وزیرِ اعظم محمد شطیہ نے اپنی حکومت کا استعفیٰ پیش کر دیا۔
اے پی کے مطابق صدر محمود عباس سے توقع ہے کہ وہ داخلی اصلاحات کے لیے امریکی مطالبات کے مطابق ٹیکنوکریٹس کا تقرر کریں گے۔
امریکہ نے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے ایک احیاء شدہ فلسطینی اتھارٹی کا مطالبہ کیا ہے۔ تل ابیب نے اس قسم کے منظر نامے کو مسترد کر دیا ہے۔
غزہ میں تیس ہزار ہلاکتیں
حماس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں دھاوا بولا تھا۔ اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس کے علاوہ حماس کے جنگجوؤں نے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
ادھر غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جنگی کارروائیوں کے دوران تقریباً 30,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔
اسرائیل نے بغیر ثبوت کے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے غزہ میں کارروائیوں کے دوران 10000 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے پی' سے لی گئی ہیں۔
فورم