|
اسلام آباد -- عدت میں نکاح کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ کی سزا معطلی کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد اُن کی رہائی کی اُمیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔
حالیہ چند روز سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ عمران خان جلد جیل سے رہا ہونے والے ہیں۔ تاہم وزیرِ اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ قانون کے مطابق عمران خان کو زیادہ سے زیادہ دیر تک جیل میں رکھا جائے۔
کیا سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی رہائی کی تمام اُمیدیں دم توڑ چکی ہیں؟ کیا مستقبل قریب میں عمران خان کی جیل سے رہائی کا کوئی امکان نہیں ہے؟ اس معاملے پر وائس آف امریکہ نے تجزیہ کاروں اور ماہرین سے بات کی ہے۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس وقت عمران خان جیل سے باہر نہیں آ سکتے کیوں کہ اگر وہ آئے تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ٹف ٹائم دیں گے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف یہ کیسز ختم بھی ہو گئے تو بھی نئے کیسز بنا کر اُنہیں جیل میں ہی رکھا جائے گا۔
قانونی پوزیشن کیا ہے؟
عمران خان کے مختلف کیسز سے متعلق عدالتی کیسز کور کرنے والے صحافی ثاقب بشیر کہتے ہیں کہ اس وقت ریکارڈ پر عدت کیس آخری مقدمہ ہے جس میں عمران خان گرفتار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر کیس میں عمران خان کو ریلیف مل بھی جاتا تو بھی عمران خان کو جیل میں رکھنے کے لیے مزید کیسز تیار ہیں۔
اُن کے بقول اس وقت نیب توشہ خانہ سے متعلق ایک نئے کیس کی تحقیقات کر رہا ہے اس میں بھی گرفتاری ڈالی جا سکتی ہے۔ جب کہ وفاقی تفتیشی ادارہ (ایف آئی اے) شیخ مجیب الرحمٰن سے متعلق ویڈیو پوسٹ کرنے کی بھی تحقیقات کر رہا ہے اور اس میں بھی کارروائی آگے بڑھ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی تھی جس میں 1971 میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ اس وقت کے فوجی افسران کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
اس ویڈیو کے آخر میں موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تصویر استعمال کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ملک اس وقت 1971 والی صورتِ حال سے گزر رہا ہے۔
ثاقب بشیر کہتے ہیں کہ لاہور میں نو مئی یا دیگر چار پانچ کیسز ہیں جن میں ضمانت قبل از گرفتاری ہے ان میں بھی ضمانت کنفرم ہونے کے امکانات ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو شاہ محمود قریشی طرز پر نو مئی کے کچھ ایسے کیسز میں بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے جن میں وہ نامزد نہ ہوں پھر آخری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا کیس حکومت نے بنایا ہوا ہو جس کی تفصیل ابھی ریکارڈ پر نہ آئی ہو۔
ثاقب بشیر کہتے ہیں کہ اس سب کے باوجود جب تک 190 ملین پاؤنڈ کیس یا نو مئی کے کیس میں ٹرائل مکمل ہونے اور سزا دینے تک عمران خان کو موجودہ کیسز میں زیادہ دیر تک جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔
'حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے باہر آنے سے اپ سیٹ ہوں گے'
سینئر تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ نے جو بات کی وہ سیاسی تھی۔ لہذٰا اگر عمران خان باہر آ بھی گئے تو کوئی طوفان نہیں آ جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ اس وقت اگر سیاسی طور پر معاملات کو دیکھا جائے تو میرے خیال میں پاکستان کا نظام اس وقت عمران خان کے باہر آنے کا متحمل نہیں ہے۔ عمران خان عدالتوں سے ریلیف لے کر ہی باہر آئیں گے۔
اُن کے بقول عمران خان اس صورتِ حال میں باہر آئیں گے تو وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو 'اپ سیٹ' کریں گے۔
سلمان غنی نے کہا کہ عمران خان نے کسی نہ کسی دن باہر تو آنا ہے، رانا ثناء للہ نے اسی تناظر میں بات کی کہ جب تک سیاسی فورسز کو سیاسی انداز میں فیس نہیں کریں گے آگے بڑھ نہیں پائیں گے۔ بدقسمتی سے عمران خان نے کوئی ایسا بندہ نہیں چھوڑا جو اسٹیبلشمنٹ سے بات کر سکے۔
سلمان غنی نے کہا کہ عمران خان اگر باہر آئیں گے تو وہ پرویز الہٰی کی طرح خاموشی سے گھر پر نہیں بیٹھیں گے۔ وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے لہذا ان کا فی الحال جیل سے باہر آنا سسٹم کے لیے ٹھیک نہیں ہو گا۔
عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکزئی اس وقت بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن عمران خان اور ان کے ساتھی اپنی شرائط پر بات کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ جو بھی نتیجہ نکلے گا وہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے ذریعے نکلے گا۔
قانونی ماہر اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ احسن اقبال اور رانا ثناء اللہ کے بیانات پر عدالتوں کو نوٹس لینا چاہیے جو کھلے عام عمران خان کو اندر رکھنے کی بات کرتے ہیں۔
قانونی طور پرعمران خان صرف عدت میں نکاح کیس میں گرفتار ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف غداری کا ایک کیس بھی ہے جس کی کابینہ نے منظوری دی تھی۔ لیکن اب تک اس کیس میں استغاثہ دائر نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے فوری طور پر کوئی کارروائی ممکن نہیں۔
اُن کے بقول شیخ مجیب کی ویڈیو میں بھی اب تک ایف آئی اے نے اپنی انکوائری مکمل نہیں کی۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے۔
اظہر صدیق نے کہا کہ نو مئی کے 18 سے زائد کیسز ہیں جن میں بیشتر میں عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری ہوچکی ہے لہذا عمران خان کو باہر آنے سے روکا نہیں جا سکتا۔
'اداروں اور پی ٹی آئی کی جنگ میں کوئی حجاب باقی نہیں رہا'
سینئر صحافی عمر چیمہ کہتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ نے کھل کر بات کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت یہ دونوں حالت جنگ میں ہیں جس میں کوئی حجاب باقی نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی وزرا کا یہ کہنا کہ عمران خان کو جیل سے نہیں نکلنے دیں گے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزید کیسز ڈالے جائیں گے۔
عمر چیمہ کے بقول اس وقت ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان جو تنازع ہے اس سے عمران خان کو فائدہ ہو رہا ہے۔ لہذٰا اس وقت کیس کے میرٹ سے زیادہ سیاسی صورتِ حال اور اختلاف کو دیکھا جا رہا ہے۔ توشہ خانہ ٹو کی کارروائی تیز ہو سکتی ہے۔ 190 ملین پاؤنڈ آخری مراحل میں ہے۔ حکومت کوئی موقع دینا نہیں چاہتی لہذا ایسے میں عمران خان کا باہر آنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
عمر چیمہ کہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال نارمل نہیں ہے اور فریقین نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فریقین ایک دوسرے پر جتنے نشتر برسا سکتے ہیں دونوں برسا رہے ہیں۔
فورم