|
صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ٹیلی وژن مباحثے میں آمنے سامنے آ رہے ہیں جو پانچ نومبر 2024 میں ہونے والے الیکشن کے لیے جاری ان کی مہم کا انتہائی اہم موڑ ہے۔
امریکہ میں ہر چار سال کے بعد ہونے والے صدارتی الیکشن میں امیدواروں کی مہم کے دوران ٹی وی پر مباحثے کی دہائیوں پرانی روایت ہے۔ البتہ اس بار خلافِ روایت یہ مباحثہ الیکشن سے کئی ماہ قبل ہو رہا ہے۔
اس سے قبل 2020 کے الیکشن سے پہلے جو بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان بھی صدارتی مہم کے دوران مباحثے ہوئے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ الیکشن سے صرف دو ماہ قبل شروع ہوا تھا۔
جمعرات کو ہونے والا دو بدو مباحثہ اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ اس کے دونوں ہی شرکا منصبِ صدارت پر فائز رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2020 میں ہونے والے مباحثے کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا جب وہ ایک دوسرے کا سامنا کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2021 میں صدر بائیڈن کی حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی اور اس کے بعد ہی سے دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے سے کتراتے رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے صدر بائیڈن کی مباحثے کے لیے تیاری پر گہرا طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں آمنے سامنے آ کر بحث کرنے کے لیے ’طاقت کی دوا‘ درکار ہو گی۔
ٹرمپ نے فلاڈیلفیا کی انتخابی ریلی میں بھی یہی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بائیڈن اس وقت مباحثے کے لیے ’مطالعہ‘ کرنے کے لیے گوشہ نشیں ہو چکے ہیں۔
انہوں ںے سوالیہ انداز میں یہ بھی کہا کہ ’’کیا پتا وہ اس وقت سو رہے ہوں کیوں کہ وہ (بائیڈن کے حامی) انہیں اچھا اور مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
ٹرمپ کئی مرتبہ یہ بات دہرا چکے ہیں کہ بائیڈن ’ٹھیک سے دو فقرے‘ بھی نہیں بول پاتے۔ تاہم حال ہی میں انہوں نے اپنے حامیوں کو اس کے لیے بھی تیار کردیا تھا کہ ممکنہ طور پر صدر بائیڈن ٹرمپ کے ان کی عمر اور صحت سے متعلق بنائے گئے کمزور تاثر سے مختلف ثابت ہوں۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’’میرا گمان ہے کہ وہ بحث کے لائق ثابت ہوں گے۔ میں ان کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہتا۔‘‘
صدر بائیڈن نے جمعرات کو ہونے والے مباحثے پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد وسطِ مئی میں اس موضوع پر پہلی مرتبہ بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ 2020 میں مجھ سے دو مباحثوں میں ہار چکے ہیں۔ اس کے بعد سے وہ کبھی بحث کے لیے سامنے نہیں آئے۔‘‘
ٹرمپ نے رواں برس کے آغاز میں صدارتی دوڑ کے لیے ری پبلکن نامزدگی کے دیگر امیدواروں کے ساتھ مباحثے سے بھی گریز کیا تھا۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ اب وہ (ٹرمپ) یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مجھ سے ایک بار پھر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ خیر، اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہو گی۔
اس مباحثے میں ممکنہ طور پر ٹرمپ اپنے مقابل جو بائیڈن کو معیشت کو درست انداز میں نہ چلانے، جنوب مغربی امریکہ کی میکسیکو کے ساتھ سرحد پر ناقص کنٹرول اور ہزاروں مہاجرین کو امریکہ میں داخل ہونے دینے کے لیے موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ اس سے قبل بائیڈن نے حال ہی میں سرحد سے داخلے پر کئی سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ صدر بائیڈن کے دورِ صدارت کے آغاز میں بے اندازہ حکومتی اخراجات کی وجہ سے مہنگائی میں سالانہ نو فی صد تک اضافہ ہوا جس نے خوراک، ایندھن اور دیگر بنیادی ضروریات کے حصول کو مشکل بنا دیا۔ اگرچہ اس شرح میں نمایاں فرق آیا ہے اور مئی میں مہنگائی کی شرح 3.3 فی صد پر آ گئی ہے۔
صدر بائیڈن ٹرمپ کو حال ہی میں عدالت کی جانب سے 34 الزامات میں قصور وار قرار دینے کی کارروائی کا حوالہ دے سکتے ہیں۔
سابق صدر پر یہ الزامات تھے کہ انہوں نے 2016 کی اتنخابی مہم کامیابی سے جاری رکھنے کی خاطر ایک پورن اسٹار کو خاموش کرانے کے لیے ’ہش منی‘ کی ادائیگی کے ریکارڈ میں غلط بیانی کی تھی۔
صدر بائیڈن یقینی طور پر ووٹرز کو یہ یاد دلائیں گے کہ ٹرمپ کو مزید تین فردِ جرم کا سامنا ہے جن میں سے دو 2020 کا الیکشن ہارنے کے بعد اس کے نتائج کو روکنے کی غیر قانونی کوشش سے متعلق ہے۔
ممکنہ طور پر بائیڈن اپنے مدِ مقابل کی جانب سے تین قدامت پسند ججوں کی تقرری کے معاملے پر بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔ سن 2022 میں سپریم کورٹ نے پانچ دہائیوں سے حاصل اسقاطِ حمل کے آئینی حق کو ختم کردیا تھا۔
بائیڈن یہ اصرار کرتے ہیں کہ ٹرمپ اگر دوسری بار منتخب ہوئے تو وہ اپنے سیاسی حریفوں سے ’انتقام‘ لینے کے اپنے منصوبوں پر عمل کریں گے جو امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ ثابت ہو گا۔
امریکہ میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان برابر کا مقابلہ ہے۔
متعدد امریکی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کروڑوں امریکی پہلے ہی اپنی تاریخ کے دو معمر ترین صدارتی امیدواروں میں سے اپنی پسند کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ صدارتی دوڑ میں شریک ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی عمر 81 برس اور ری پبلکن امیدوار ٹرمپ کی عمر 78 برس ہے۔
مبصرین کے مطابق کئی رائے دہندگان دونوں امیدواروں کو ناپسند کرتے ہیں جنھیں موجودہ سیاسی تناظر میں ’ڈبل ہیٹرز‘ بھی کہا جا رہا ہے۔
یہ ایسے ووٹرز ہیں جو ان دو میں سے کسی کا انتخاب کریں گے بھی تو بادل نخواستہ ہی کریں گی، یا کسی تیسری پارٹی یا آزاد امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ یا پھر ممکن ہے کہ یہ ووٹ ہی نہ ڈالیں۔
دو بڑی پارٹیوں سے ہٹ کر ووٹ کا فیصلہ کرنے والے ووٹرز یا وہ جو اب تک صدارتی مہم پر پوری نظر نہیں رکھ پائیں ہیں ان کے لیے یہ مباحثہ رائے دہی سے متعلق فیصلے میں مددگار ہو سکتا ہے یا کم از کم کسی ایک جانب متوجہ کر سکتا ہے۔ اس سلسلے کا دوسرا مباحثہ 10 ستمبر کو ہو گا۔
سال 2020 کے انتخابات سے قبل بھی جو بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان صدارتی مباحثہ ہوا تھا جسے تقریباً سات کروڑ 30 لاکھ ناظرین نے دیکھا تھا۔
اس مباحثے میں ہونے والی بدمزگی اور دونوں امیدواروں کی جانب سے مسلسل ایک دوسرے کی بات کاٹنے سے پیدا ہونے والے ماحول کی بنا پر تجزیہ کاروں نے اس مباحثے پر شدید تنقید کی تھی۔ البتہ ان کا اگلا مباحثہ قدرے شائستگی سے انجام پایا تھا۔
مباحثے کے نئے ضوابط
ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اس بار مباحثے کو شائستگی کے دائرے میں رکھنے کے لیے اس کے میزبان ’سی این این‘ کئی ضابطے بنائے ہیں اور بحث کا مکمل خاکہ فراہم کیا ہے۔
اس بار کے مباحثے میں مقرر کا مائیک صرف بات کرتے وقت کھولا جائے گا۔ بات ختم ہوتے ہی مائیک بند کردیا جائے گا۔ دوسری تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اس بار مباحثے کے دوران اسٹوڈیو میں سامعین نہیں ہوں گے۔
مباحثے کا دورانیہ 90 منٹ ہو گا جس میں امیدوار کوئی تمہیدی گفتگو نہیں کریں گے بلکہ صرف میزبانوں کے سوالوں کا جواب دیں گے۔ دونوں امیدواروں کو سوال کا جواب دینے کے لیے دو منٹ کا وقت دیا جائے گا۔
مقابل امیدوار کی کسی بات کی تردید یا اس پر کوئی اعتراض کرنے کے لیے دوسرے امیدوار کو ایک منٹ دیا جائے گا اور اس تردید یا اعتراض کے جواب الجواب کے لیے پہلے مقرر کو بھی ایک منٹ دیا جائے گا۔ میزبان اپنی صوابدید پر ایک اضافی منٹ بھی دے سکتے ہیں۔
ہر امیدوار کو گفتگو کے لیے دیا گیا وقت ختم ہونے سے پانچ سیکنڈ قبل سرخ بتی جلنا بجھنا شروع کر دے گی اور وقت ختم ہوتے ہی بتی مکمل طور پر سرخ ہو جائے گی۔
مقررین کو اسٹیج پر پہلے سے لکھے ہوئے نوٹس یا کوئی اور چیز ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ہر امیدوار کو پانی کی بوتل اور لکھنے کے لیے قلم و کاغذ دیے جائیں گے۔
مباحثے کے لیے اسٹیج پر ایک جیسے پوڈیمز رکھے گئے ہیں۔ ان پوڈیمز پر سے صدر بائیڈن دائیں اور ٹرمپ اسکرین کے بائیں جانب نظر آئیں گے۔ اسٹیج پر دائیں اور بائیں کھڑے ہونے کا یہ فیصلہ ٹاس کر کے کیا گیا تھا جو بائیڈن جیت گئے تھے۔
دونوں امیدواروں کے درمیان 90 منٹ تک جاری رہنے والے اس مباحثے میں اشتہاروں کے لیے دو وقفے ہوں گے۔ اس وقفے کے دوران امیدوار اپنے عملے کے افراد سے بھی نہیں مل سکیں گے۔
اس بار روایت کے برخلاف کمرشل وقفوں کے دوران کارپوریٹ اسپانسر شپ کی اجازت دی گئی ہے۔
مباحثے کے اختتام پر دونوں امیدواروں کو اختتامی گفتگو کے لیے دو، دو منٹ دیے جائیں گے جس میں پہلے بائیڈن اور آخر میں ٹرمپ بات کریں گے۔ یہ ترتیب بھی پوڈیم کے لیے ہونے والے ٹاس کے طریقہ کار سے متعین کی گئی ہے۔
فورم