|
ویب ڈیسک__فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس اسرائیلی حملوں میں قائدین کی ہلاکت کے بعد تیزی اور آسانی کے ساتھ آئندہ جانشین کا انتخاب کرنے کی تاریخ رکھتی ہے۔
حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ بدھ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں قتل کر دیے گئے تھے جس کے بعد تنظیم کو نئے سربراہ کی تلاش ہے۔
ہنیہ کا قتل ایسے وقت میں ہوا ہے جب حماس اسرائیل پر کیے گئے اپنے حملے کے بعد غزہ میں گزشتہ 10 ماہ سے جاری جنگ میں شدید دباؤ کا شکار ہے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے کے نتیجے میں اسرائیل میں 1200 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ حماس نے 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس حملے کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کی کارروائیوں میں مقامی صحت کے حکام کے مطابق 39 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور غزہ کی پٹی کا اکثر علاقہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اب بھی لگ بھگ 100 یرغمال اسرائیلی حماس کی تحویل میں ہیں۔
جانشینی کا فیصلہ کیسے ہوگا؟
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے حماس کے ایک عہدے دار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی جانشینی کے معاملے پر بات چیت جاری ہے۔
اسماعیل ہنیہ اپنی موت تک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ تھے۔ ان کے نائب صالح العاروری پہلے ہی رواں برس جنوری میں بیروت پر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
صالح زندہ ہوتے تو وہ ازخود اسماعیل ہنیہ کی ذمے داریاں سنبھال لیتے۔ حماس نے صالح کی ہلاکت کے بعد سیاسی بیورو کا کوئی نائب سربراہ بھی مقرر نہیں کیا تھا۔
حماس کی مرکزی شوریٰ کونسل کا اجلاس جلد متوقع ہے۔ ممکنہ طور پر یہ اجلاس قطر میں اسماعیل ہنیہ کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد ہوگا اور ان کے جانشین کا فیصلہ کرے گا۔
اس کونسل کے ارکان کے نام خفیہ رکھے گئے ہیں تاہم اس میں غزہ، مغربی کنارے، بیرونِ ملک مقیم اور قید میں موجود تنظیم سے منسلک افراد سبھی کو نمائندگی دی گئی ہے۔
ہنیہ کے ایک اور نائب زاہر جبارین ہیں جنھیں تنظیم کے مالیاتی اور انتظامی امور میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے حماس کا ’سی ای او‘ کہا جاتا ہے۔ زاہر کے ایران سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔
اگلا سربراہ کون ہوسکتا ہے؟
فلسطینی تنظیموں سے متعلق امور کے ماہر ہانی المصری کا کہنا ہے کہ حماس کو خالد مشعل اور خلیل الحیہ میں سے کسی ایک انتخاب کرنا ہوگا۔
خالد مشعل حماس کے سابق سربراہ ہیں جب کہ خلیل الحیہ کو حماس میں ایک مضبوط شخصیت سمجھا جاتا ہے اور ان کا شمار اسماعیل ہنیہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔
ہانی المصری ’پیلسٹینیئن سینٹر فور پالیسی اینڈ ریسرچ‘ نامی تھنک ٹینک کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کے بقول حماس کے لیے ان دو رہنماؤں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا آسان نہیں ہوگا۔
حماس کے نئے سیاسی لیڈر کو یہ طے کرنا ہوگا کہ عسکری کارروائیاں جاری رکھی جائیں اور حماس کو زیرِ زمین رہ کر کارروائیاں کرنے والے گوریلا جنگجو گروپ میں تبدیل کر دیا جائے؟ یا انہیں ایسا لیڈر متنخب کرنا ہوگا جو سیاسی سمجھوتوں کے لیے بھی تیار ہو۔ لیکن موجودہ حالات میں آسان نظر نہیں آتا۔
خالد مشعل سیاسی اور سفارتی تجربہ رکھتے ہیں لیکن 2011 میں ہونے والے عرب مظاہروں کی حمایت کی وجہ سے ایران، شام اور حزب اللہ سے ان کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ 2011 میں خالد مشعل لبنان میں تھے تو مبینہ طور پر حزب اللہ کی قیادت نے ان سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا۔
البتہ مشعل کے ترکیہ اور قطر سے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ 2017 تک گروپ کے سربراہ رہے اور انہیں ایک معتدل رہنما تصور کیا جاتا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے بدھ کو ہنیہ کے قتل کے بعد تعزیت کے لیے خالد مشعل کو فون بھی کیا تھا۔
حماس کے ایک اہم ترین رہنما یحییٰ السنوار ہیں جو غزہ میں جاری جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہیں خالد مشعل کے بالکل برعکس سخت گیر رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سنوار کی جانب سے خالد مشعل کی قیادت کی حمایت کے امکانات کم ہیں۔
ایک اور رہنما خلیل الحیہ کا شمار مقتول رہنما اسماعیل ہنیہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وہ حماس کے ایک نمایاں لیڈر ہیں اور ان کا تعلق غزہ سے ہے۔ ان کے ایران اور ترکیہ سے اچھے تعلقات ہیں اور وہ حماس کے عسکری ونگ میں بھی رسوخ رکھتے ہیں۔
مارچ 2011 میں حماس نے شام میں صدر بشار الاسد کے مخالفین کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے ایران اور بشار دونوں ہی سے اس کی دوریاں ہوگئی تھیں۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ حماس نے ان تعلقات کو بحال کیا اور بشار الاسد کے ساتھ بھی مفاہمت کرلی تھی۔ خلیل الحیہ نے 2022 میں شام جا کر صدر بشار الاسد سے ملاقات کرنے والے وفد کی سربراہی کی تھی۔
ہانی المصری کے مطابق خلیل الحیہ بالکل ہنیہ کی طرح ہیں۔ وہ متوازن اور لچکدار رویہ رکھتے ہیں اس لیے کسی کو بھی ان کی قیادت سے مسئلہ نہیں ہوگا۔
حماس کی قیادت کا انتخاب فسلطینی علاقوں سے باہر تنظیم کے اتحادیوں سے اس کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوگا۔
ہانی المصری کے مطابق حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کے لیے رواں برس انتخاب ہونا تھا لیکن غزہ جنگ کی وجہ سے یہ معطل ہوگئے۔ اس لیے ہنیہ کی موت کے بعد قیادت کا فیصلہ عارضی اور عبوری نوعیت کا ہوگا۔
حماس کی قیات کا اجلاس کا منعقد کرنا بھی ایک پیچیدہ مرحلہ ہوگا۔ کیوں کہ سنوار اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے فیصلہ سازی میں اہم ہیں لیکن ان سے رابطے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔
جنگ بندی پر مذاکرات کی رفتار سست ہے۔ بظاہر اسرائیل کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ حماس کے لیے شکست تسلیم کرنے یا جنگ جاری رکھنے کا آپشن ہی باقی رہنے دے گا۔
ہانی المصری کے نزدیک حماس کی قیادت کے تیسرے مضبوط امیدوار نزار ابو رمضان ہیں جو غزہ کی سربراہی کے لیے سنوار کے مقابل رہے ہیں اور انہیں خالد مشعل کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔
فورم