|
اسلام آباد -- پاکستان کے صوبے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں 60 سے ہلاکتوں کے معاملے پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخی نمایاں رہی۔ پیر کو اس معاملے پر بات ہوئی تاہم منگل کو اجلاس جلدی ملتوی ہونے کی وجہ سے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جمعے کو اس معاملے پر پھر بحث ہو گی۔
پیر کو بلوچستان کے پریشان کن حالات دیکھ کر لگ رہا تھا کے اسی پیر کے دن شام پانچ بجے قومی اسمبلی کے ہونے والے اجلاس میں معمول کی کارروائی روک کر بلوچستان کے حالات پر بحث کی جائے گی مگر قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بلوچستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی مغفرت کے لیے دعا کرانے کے بعد معمول کی کاروائی کا آغاز کردیا۔
یہ عمل کم سے کم میرے لیے حیرانگی کا باعث اس لیے بھی تھا کہ بلوچستان میں غیر معمولی حالات سے زیادہ اہمیت وقفہ سوالات کی معمول کی کارروائی کو دی جا رہی تھی۔ ایجنڈے کے مطابق سب سے پہلے جب وقفہ سوالات پر کارروائی شروع ہوئی تو سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور بلوچستان کے مسئلے پر بولنے کی اجازت مانگی۔ مگر اسپیکر نے یہ کہہ کر ان کو بولنے کی اجازت نہیں دی کہ اب وقفہ سوالات کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔
اسپیکر کی جانب سے اس معاملے کو نظرانداز کرنے پر اپوزیشن ارکان نے احتجاجی واک آؤٹ تو کیا مگر کچھ دیر بعد وہ واپس آ گئے۔
اپوزیشن کے احتجاج کا یہ انداز بھی حیران کن تھا کیوں کے اس سے پہلے جب بھی اپوزیشن کی بات نہیں مانی گئی تو اپوزیشن اپنی بات منوانے کے لیے ایوان میں شور شرابہ، ہنگامہ آرائی کرنے کے ساتھ اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہو کر احتجاج اور سخت نعرے بازی کرتی رہی ہے۔
اس دوران قومی اسمبلی کی معمول کی کارروائی جاری رہی اور بلوچستان کی صورتِ حال پر رولز معطل کر کے باضابطہ بحث نہیں کرائی گئی مگر کچھ ارکان نے پوائنٹ آف آرڈر پر بلوچستان کے حالات پر بات کی۔ مگر متعلقہ وفاقی وزیر کو بحث سمیٹنے کے لیے تقریر بھی کرنی پڑتی۔
وزیرِ داخلہ کے استعفے کا مطالبہ
اپوزشن لیڈر عمر ایوب کو جب بات کرنے کا جب موقع ملا تو انہوں نے بلوچستان کے حالات پر پر مختصر بات کی۔ اپوزیشن لیڈر نے سب سے پہلے پی ٹی آئی کے گرفتار رکن قومی اسمبلی چودھری امتیاز کے پروڈکشن آرڈر کے ذریعے ایوان میں لانے پر حکومت کی تعریف کی۔ وقت سے قبل سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کا پاکستان کے نئے چیف جسٹس کے طور پر تقرر کرنے کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔
عمر ایوب نے بلوچستان اور رحیم یار خان کے کچے کے علاقوں میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے واقعات کی بھی مذمت کی۔ عمر ایوب نے آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں دھوم دھام سے جلسہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
سابق اسپیکر اسد قیصر نے بلوچستان میں پیدا ہونے والے حالات کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں واقعات انٹیلی جینس کی ناکامی ہے۔ وزیرِ داخلہ محسن نقوی امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔
نواب اکبر بگٹی کا ایک سندھی ٹی وی کے لیے طویل ترین انٹرویو کرنے والی پیپلز پارٹی کی رکن مہتاب اکبر راشدی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کوئی معمولی بات نہیں جس کو بیان بازی کر کے نطرانداز کر دیا جائے۔
وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے اپوزیشن کی تقاریر کے جواب میں کہا کہ بلوچستان میں جوانوں نے شہادت دی ہے اس مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
عطا تارڑ نے جب سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے دور میں دہشت گردی کے خاتمے کا دعویٰ کیا تو اس پر اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ کیا۔
پیر کی شام کو شروع ہونے والا اجلاس بظاہر تو رات سوا دس بجے تک چلایا گیا مگر بلوچستان کی صورتِ حال پر قومی اسمبلی کے مجموعی ارکان میں سے دو فی صد ارکان نے بھی تقاریر نہیں کیں نہ ہی اس مسئلے پر حکومت کی کوئی واضح پالیسی سامنے آ سکی۔
امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان کے معاملے پر کھل کا بات ہو گی مگر صبح ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونے والا اجلاس کورم کی نشان دہی کے آدھے گھنٹے بعد ہی جمعے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں بھی بلوچستان کی صورتِ حال پر حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخی رہی۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور پوائنٹ آف آڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کے ہم نے فاتح خوانی کر دی مگر یہ مٹی ڈالنے والی بات ہے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے بھی اپنی تقریر کی ابتدا اپنے گرفتار سینیٹر کے پروڈکشن آرڈر سے کرنا پسند کی۔ شبلی فراز نے اپنی تقریر کی شروعات کرتے ہوئے کہا کے ہم نے گرفتار سینیٹر اعجاز چودھری کا پروڈکشن آڈر جاری کرنے کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ پروڈکشن آرڈر جاری ہونا ہمارے رکن کا حق ہے۔
وزیرِ قانون نے کہا کے یہ نہیں کہوں گا کے ماضی میں غلط ہوا ہے تو اب بھی ایسا ہونا چاہیے قواعد و ضوابط کے مطابق چلنا چاہیے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جس طرح دو روز تک بلوچستان میں آگ لگی رہی، میرا خیال تھا کہ سینیٹ میں اس معاملے پر سنجیدگی سے بات ہو گی۔ لیکن وزیرِ داخلہ اس معاملے پر غیر سنجیدہ بیان دے رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیرِ داخلہ بلوچستان گئے اور وہاں کہا کہ بلوچستان میں شرپسندوں سے نمٹنے کے لیے ایک ایس ایچ او ہی کافی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ایس ایچ او سے بھی نیچے کی چیز ہے کہ جو یہ حملے روکنے میں ناکام رہی۔
اُن کا کہنا تھا کہ 25 اور 26 اگست کو بلوچستان میں حکومت یا کسی ایجنسی کی رٹ نہیں تھی جس طرح زبان اور نسل کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا گیا، وہ شرمناک تھا۔
شبلی فراز نے کہا کہ جب ہم چھوٹے تھے تو بلوچستان کے حوالے سے کوئی اچھی خبر نہیں سنتے تھے۔ بلوچستان گیس پیدا کرتا تھا مگر اس کی اکثریت کو گیس نہیں ملتی تھی جب ہم نے ہوش سنبھالا تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو ختم کر کے آپریشن کیا۔ اس دن سے آج تک بلوچستان میں حالات بہتر نہیں ہوئے۔
نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار نے جب ایوان میں گفتگو شروع کی تو اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ شروع کر دیا جس پر اسحاق ڈار غصے میں آ گئے۔
ڈپٹی چیئرمین نے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کا نام لیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے لوگوں کو خاموش کرائیں۔ اسحاق ڈار بولے یہ کوئی طریقہ نہیں ایوان چلانے کا ان کو بتائیں یہ ایوان کس طرح چلا کرتا تھا میں اپوزیشن لیڈر کو درخواست کروں گا کہ اگر ان کو مستقبل میں بولنا ہے تو پلیز ڈسپلن قائم کریں اس ایوان کی روایت رہی ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور قائد ایوان جب مائیک مانگے ان کو مائیک ملتا ہے۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ جو کچھ بلوچستان میں ہوا ہے اس پر ہر پاکستانی رنجیدہ ہے بلوچستان پاکستان کا بہت ہی اہم صوبہ ہے ہمارے دل کے قریب ہے۔ آج وفاقی کابینہ میں بھی تفصیلی بات ہوئی ہے وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت رابطے میں ہیں وزیر اعظم دو تین روز میں بلوچستان جارہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں سوچنا ہے کہ اس کے محرکات کیا ہیں جو لوگ پاکستان کی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں اور ہونے چاہئیں مگر جو ناراضگی کے نام پر پہاڑوں پر چھوڑ کر معصوم لوگوں کو ماریں گے تو پورا ایوان متفقہ طور ان کی مذمت کرے۔
فورم